الطاف نے ”لندن پلان“ کو پھر راز رہنے دیا

Sep 11, 2011

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (اشرف ممتاز / دی نیشن رپورٹ) ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے 200 منٹ کی نیوز کانفرنس مےں 5 اہم نکات بیان کئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 12مئی 2007ءکو انہوں نے چیف جسٹس کےخلاف کوئی جلوس نکالا تھا نہ ہی ان کے روٹ کو بلاک کرنے کےلئے کنٹینر لگائے۔ انہوں نے اس دن قتل و غارت کی تمام تر ذمہ داری اے این پی اور جماعت اسلامی پر ڈال دی۔ پاکستان کو توڑنے کےلئے عالمی سازش کا انکشاف کیا۔ انہوں نے سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے الزامات کا جواب دینے سے انکار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ الطاف حسین سے پہلے ایم کیو ایم کے 2راہنماﺅں فیصل سبزواری اور مصطفی کمال نے الگ الگ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ صحافیوں کے سوالات سچائی کو سامنے لے آئیں گے مگر انہوں نے اپنے اوپر لگائے سنگین الزامات کا جواب دینا گوارہ نہیں کیا، اپنی پوزیشن صاف کرنے کی بجائے انہوں نے سیاسی مخالفوں اے این پی اور جماعت اسلامی پر الزامات عائد کئے۔ ملکی سالمیت اور یکجہتی تمام ایشوز سے زیادہ اہم ہے۔ اگر الطاف حسین کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان ہےں تو پھر آرمی ان کی پیشکش کیسے قبول کرے گی کہ ایم کیو ایم کے ارکان ان کے شانہ بشانہ کام کرنے کےلئے تیار ہےں انہیں ڈاکٹر مرزا کی طرح حلف لے کر الزامات کی حقیقت بتانی چاہئے تھے۔ انہیں بتانا چاہئے تھا کہ انہوں نے اجلاس مےں امریکی سازش کی بات کی تھی۔ وہ شخص جس پر پاکستان کے خلاف سازش کرنے کا الزام ہو اس کے ملکی یکجہتی کےلئے کام کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسے محب وطن بھی قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ عام آدمی کے مکمل اطمینان کےلئے اپنے اوپر لگائے گئے سنگین الزامات کی تردید نہ کرے۔ انہیں برطانوی وزیراعظم کو لکھے گئے اپنے خط کے بارے مےں بھی قوم کو بتانا چاہئے تھا جو شخص آئی ایس آئی کا خاتمہ چاہے وہ پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد کو اس بات کا انکشاف کرنے مےں 3 سال لگے کہ اے این پی کو 2008ءکے انتخابات جیتنے کےلئے لاکھوں ڈالر امریکہ کی طرف سے دیئے گئے تھے۔ انہیں یہ معاملہ اسی وقت قوم کے سامنے لانا چاہئے تھا۔ ذوالفقار مرزا کے قرآن پاک اٹھا کر الزامات سے ان کا وزن زیادہ ہوا اسے نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ الطاف حسین کے لئے لندن پلان کو پراسرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
مزیدخبریں