قائداعظمؒ دیانت و امانت کا مینارہ نور

حضرت قائداعظمؒ کے ذاتی اوصاف اور ان کی زندگی کا طرزعمل اولیائے کرام اور صوفیائے کرام سے یک رنگ اور ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ انہوں نے جو کمایا اپنی محنت شاقہ سے کمایا‘ اپنے آپ پر بھی خرچ کیا۔ مسلم لیگ کو بھی عطیات عطاءکئے۔ غریب رشتے داروں کا بھی خیال رکھا اور اپنی وصیت میں تحریر فرما گئے کہ ان کا جمع شدہ سرمایہ تمام حقداروں کو جس میں ان کے رشتہ دار بھی شامل تھے، بھائی، بہنیں بھی تھیں، ادا کر دیا جائے بلکہ یہاں تک کہ بمبئی کے جس سکول میں چھ ماہ تعلیم حاصل کی، وہاں بھی اپنا عطیہ ادا کیا۔
شولال ہندو مصنف نے اپنی کتاب ”ہندوستان کے نادان حکمران“ میں ذکر کیا ہے کہ گاندھی جس نے 1915ءسے لے کر یعنی افریقہ سے ہندوستان واپس آنے کے وقت سے لے کر تادم وفات قوم کا کھایا، ان کی بکریاں بھی قوم پر پلتی رہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے اور کانگریس سے تنخواہ لینے لگے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے سال کے بعد اپنے ٹی اے / ڈی اے اور تنخواہوں کی رقم بڑھائے جانے پر اصرار کرتے تھے۔ انہوں نے کتابوں کی رائلٹی جو کئی لاکھ روپے سالانہ تھی، اندرا بیٹی کے نام منتقل کر دی، بہن کو محروم کر دیا۔ راجندر پرشاد صدر بھارت سرکاری خزانے سے ”خاطرداری بھتہ“ اتنا ہی نکلواتے تھے جتنا مونٹ بیٹن اور ویول نکلواتے تھے مگر خرچ اس سے 50 روپے بھی نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی قلمبند کیا گیا ہے کہ سردار پٹیل نے وزیر بن کر کیا کیا شاہ خرچی فرمائی۔ صدر بھارت مسٹر گری نے کس کس بے امانتی کا ارتکاب کیا۔ ان سب تذکروں کے بعد وہ بقول خود ہندوستان کے دشمن اول یعنی مسٹر جناحؒ کا ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام عمر محنت اور مشقت کے دم قدم سے خوب دولت کمائی اور اس دولت کو قوم کے کاموں پر خرچ بھی کیا‘ اپنی ذات پر بھی اور عزیزوں پر بھی۔ قوم سے کبھی کچھ نہ لیا اور نہ آل انڈیا مسلم لیگ سے اور پھر بہت سی رقم وقف کر گئے۔ بہنوں کا حصہ الگ ادا کیا۔ بہت سے پاکستانی اور ہندوستانی تعلیمی اداروں کے لئے رقوم مخصوص کیں۔ شولال جیساکہ ظاہر ہے ہندو ہے، اندرا گاندھی پر یہ کتاب اس نے 1977ءمیں قلمبند کی تھی۔ اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
 قائداعظمؒ کی قیادت ہمارے لئے مثال ہے، محنت، خلوص، استقامت، اصول پسندی اور ایثار کی۔ قائداعظمؒ کے سیاسی پیروکار ان صد احترام کا فرض ہے کہ وہ دیانتدار اور ایثار پیشہ ثابت ہوں اور مسلم لیگ کو ایک طاقتور سیاسی جماعت بنائیں پھر وہ طاقتور اور منظم جماعت بہتر سے بہتر آدمی انتخابات کیلئے نامزد کرے جو اہم کام کرنے کے اہل ہوں، منتخب ہو کر آنے والے اکثر فقط وہی لوگ نہ ہوں جو دولت کے زور اور برادری کی قوت اور کمال رسہ گیری کے سہارے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جن کو نہ کوئی قومی شعور میسر ہوتا ہے اور نہ انہیں وطن کے احوال سے کوئی غرض ہوتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ لوگ بالعموم اپنی ”ٹوہر“ بنانے کیلئے آتے ہیں اور اکثر کے پیش نظر انتخابات پر خرچ ہونے والی بھاری بھرکم رقم کو واپس وصول کرنا ہوتا ہے۔ فقط اصل زر ہی کی واپسی مقصود نظر نہیں ہوتی بلکہ بمعہ سود بھی۔
حضرت قائداعظمؒ دیانت و امانت و شرافت و شجاعت‘ انسانیت و صداقت کے پیکر عظیم تھے۔ وہ ایثار و قربانی کا ایک اعلیٰ نشان اور اندھیروں کے لئے آفتاب جہاں تاب تھے۔ حضرت قائداعظمؒ آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی روح آج بھی مسلمانان پاکستان کے لئے رہنمائی کے فرائض انجام دے رہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستان 27 رمضان المبارک بروز جمعہ 14 اگست 1947ءکو معرض وجود میں آیا لیکن کیا پاکستان کے معرض وجود میں آجانے سے وہ تحریک جس نے پاکستان کی تخلیق کی تھی، ختم ہوگئی، ایسا نہیں ہوا۔ سچے اور پکے پاکستانیوں کے اذہان و قلوب میں وہ تحریک آج بھی موجزن ہے اور جاری و ساری ہے اور انشاءاللہ قائم و دائم رہے گی۔ قوم کے جن افراد کا حضرت قائداعظمؒ کے ساتھ قلبی اور روحانی رشتہ استوار ہے، وہ آج بھی چلتی پھرتی تحریک پاکستان ہیں۔
مگر ایسے بھی بد باطن پاکستانی ہیں جو تقسیم ہند کو آج بھی انگریز کی سکیم تصور کرتے ہیں اور حضرت قائداعظمؒ کے دینی افکار اور عقیدے کے بارے میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پرچار بھی کرتے ہیں اور سیکولر کہتے ہیں۔ اپنے نام نہاد ”علمی مقام“ کا اظہار کرنے کے لئے حضرت قائداعظمؒ پر اس طرح کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں کہ وہ انگریزوں کے آلہ کار تھے۔ حضرت قائداعظمؒ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 1944ءکو خطاب کے دوران فرمایا کہ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبہ کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیم ہند کے مطالبہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندوﺅں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
    (جاری)

ای پیپر دی نیشن