قائداعظم کے اسلاف ”پنجابی مسلم راجپوت“ تھے

قائداعظم محمد علی جناح کے حالات حیات قلمبند کرنے کا سلسلہ تو انکی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن انہوں نے رسمی انداز میں اپنی سوانح حیات ”واحد متکلم“ میں اس طرح نہیں لکھی جس طرح ہندوﺅں کے سیاسی رہنما موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی زندگی کے کچھ حصے کو اپنے قلم سے لکھا تھا۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں قائداعظم نے اپنے حالات حیات کو سربستہ راز رکھا۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی تقرروں میں مناسب مواقع پر بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ کوئی شخص انکی زندگی کے بارے میں کوئی غلط بات کہتا یا انکے ارشادات عالیہ سے اصل حقیقت سے مختلف مفہوم نکالتا تو اس کی تردید بروقت کر دیتے تھے۔ اسکی مثال اردو ادب کے ایک سنجیدہ نظر مورخ محمد عبداللہ قریشی نے پیش کی ہے کہ : ”جب نواب صاحب باغ پت نے کہا کہ آپ کا خاندان تو تجارت پیشہ ہے، پھر آپ میں یہ گھن گرج کہاں سے آئی ہے“
تو قائداعظم نے فرمایا:
”میں پنجابی مسلم راجپوت ہوں۔ کئی پشتیں گزریں میرے ایک جد کاٹھیا واڑ چلے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ایک خوجہ کی لڑکی سے شادی کرلی اور انہی کے خاندان میں مل گئے۔ اس وقت سے ہم لوگ خوجوں میں شمار ہونے لگے۔ ہیں۔ میرے جد جو کاٹھیا واڑ چلے گئے تھے وہ ضلع منٹگمری کے رہنے والے تھے۔“
محمد عبداللہ قریشی نے قائداعظم محمد علی جناح کی اس روایت کو نواب صاحب چھتاری کے پرائیویٹ سیکرٹری صفیر احمد عباسی سے منسوب کیا ہے جو اس وقت مجلس میں موجود تھے تاہم قائداعظم کے آباءو اجداد کا پنجاب کے مسلم راجپوت خاندان سے تعلق ضمنی حیثیت رکھتا ہے اور وہ خوجہ خاندان کی لڑی میں ہی پروئے گئے ہیں اور متذکرہ روایت کی اساس پر یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ مشکلات کا سامنا کرنے میں ثابت قدمی، اپنے موقف کی صداقت پر پختگی سے قائم رہنا اور اپنے نقطہ نظر کو جرات مندی سے پیش کرنا انکے ڈی این اے (DNA) میں شامل تھا اور بمبئی کاٹھیا واڑ کے نسل در نسل قیام نے بھی اس میں تبدیلی نہیں کی۔ انکی ولادت 25دسمبر 1876ءکو پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گوکل داس پرائمری اور سندھ مدرستہ الاسلام ہائی سکول میں حاصل کی جس کے صدر دروازے پر کتبہ انگریزی میں درج تھا: ”علم حاصل کرنے کےلئے آﺅ، اور خدمت کرنے کےلئے جاﺅ“
قائداعظم کی عملی زندگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کتبے کو اپنے دل میں اتار لیا تھا اور اپنا وقت کھیل کود میں ضائع کرنے کے بجائے کتابوں کے مطالعے میں صرف کرنے لگے۔ انکے یہ الفاظ انکے مزاج کے روشن زاویے اور نصب العین کی طرف پیش قدمی کو ظاہر کرتے ہیں۔
”میں زیادہ اس لئے پڑھتا ہوں کہ مجھے ایک دن بڑا آدمی بننا ہے۔ کیا آپ پسند نہیں کرتے کہ میں بڑا آدمی بنوں“ انکے والد جناح پونجا نے ایک انگریز دوست کے مشورے پر بیرسٹری کےلئے لندن روانہ کیا اور انہیں ”لنکن ان“ میں داخلہ مل گیا۔ لندن ان کےلئے اجنبی تھا۔ کہر اور دھند میں سمٹی ہوئی سردی نے انہیں پریشان کیا لیکن جلد ہی وہ لندن کے موسم اور ماحول سے مانوس ہو گئے۔ طالب علمی کے اس دور میں انہیں لاڈ مورلے کے لبرل ازم نے متاثر کیا۔ نوجوان محمد علی جناح نے اعتراف کیا کہ لارڈ مورلے کے افکار و نظریات میرے رگ و پے میں سرایت کر گئے اور مجھے عجیب خوشی اور مسرت کی کیفیت بخشی۔“ اکیس برس کی عمر میں بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے کراچی واپس آئے لیکن قانون کی پریکٹس 1897ءمیں بمبئی سے شروع کی۔ 1900ءمیں بمبئی کے پریذیڈنسی مجسٹریٹ مقرر ہوئے۔ چھ ماہ کے بعد عارضی مدت ختم ہونے پر سر چارلس آلیونٹ نے انہیں ایک بہتر ملازمت کی پیش کش کی لیکن جناح نے جواب دیا:
”شکریہ جناب! میں اس ملازمت کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ایک دن میں کمانے لگوں گا۔“
کچھ عرصے کے بعد اورئنٹ کلب بمبئی کی ایک تقریب میں انکی ملاقات سر چارلس سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا ”کیسے گزرتی ہے؟“ بقول جناح ”میں نے کہا خدا کا شکر ہے۔ دو ہزار روپے سے زیادہ کما لیتا ہوں۔“ سر چارلس اولیونٹ بولے ”شاباش! مجھے مسرت ہے کہ تم نے میری پیشکش ٹھکرا دی۔“ سرکاری ملازمت کی یہ پیشکش پندرہ سو روپے ماہانہ کی تھی۔ اس دوران محمد علی جناح دادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت میں آل انڈیا کانگریس میں شرکت کر چکے تھے۔ 1909ءمیں سپریم امپیریل کونسل کے بلامقابلہ ممبر منتخب ہوئے تو ان کیلئے سیاست کا کھلا میدان موجود تھا۔ اور 1914ءمیں بال کرشن گوکھلے کے ساتھ لندن گئے تو ٹائمز (لندن) کو ایک طویل انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کہا: برٹش امپائر کا ہندوستان وہ تنہا ممبر ہے جو حکومت کے نظام میں نمائندگی سے محروم ہے اور دنیا میں ہندوستان وہ تنہا ملک ہے جہاں نمائندہ اور ذمہ دار حکومت کا وجود ہی نہیں ہے۔“
اس دور میں وہ آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ میں اتحاد کی کوشش کر رہے تھے۔ 1915ءکے اوائل میں گاندھی افریقہ میں بیس برس گزار کر آئے تو انہوں نے ہندوستانی سیاست میں محمد علی کی اہمیت کو پہچان لیا اور ایک گارڈن پارٹی کی صدارت جناح نے کی تو گاندھی نے عیارانہ انداز میں کہا ”مجھے خوشی ہے کہ اس تقریب کی صدارت ایک مسلمان کر رہا ہے۔ 1916ءمیں میثاق لکھن¶ بے حد اہم تاریخی واقعہ ہے کہ کانگرس نے بھی مسلمانوں کےلئے جداگانہ انتخابات کا طریق قبول کر لیا تھا۔ اس وقت جناح مسلم لیگ اور کانگریس دونوں پر چھائے ہوئے تھے اور انکے کردار کی فعالیت کے پیش نظر کانگریس کے اجلاس میں مسز سروجنی نائیڈو نے انہیں ”ہندو مسلم اتحاد کا سفیر“ کہا۔ لیکن جناح اپنی سیاست کے مہرے دانشمندی سے چل رہے تھے اور 1919ءمیں سرکاری ممبران کی اکثریت سے رولٹ ایکٹ منظور کر لیا گیا تو محمد علی جناح نے امپیریل کونسل سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے وائسرائے ہند کو لکھا:
”مجرمانہ سازش کا مسئلہ رولٹ کمیٹی نے اس طرح اٹھایا ہے جیسے کچھ جرائم پیشہ قبائل ہم میں دفعتہً نمودار ہو گئے ہیں اور اب ضروری ہے کہ ایک قانون بنا کر ان کا صفایا کر دیا جائے.... ان حالات میں کوئی خوددار آدمی حکومت سے تعاون نہیں کر سکتا۔ ایسی حکومت سے جو آئین ساز ایوان میں قوم کے منتخب نمائندوں کو ٹھکرا دیتی ہو۔“
اب گاندھی ہندوستان کی سیاست میں اپنے پر پرزے نکال رہے تھے، ہندو جنتا ان کی باتوں پر کان دھر رہی تھی اور وہ تحریک خلافت میں رسمی اور نیم دلانہ تعاون کی قیمت مسلمانوں سے تحریک ترک موالات (یعنی عدم تعاون) میں مانگ رہے تھے لیکن گاندھی کی اس تحریک کے تحت حکومتی مشینری ناکام نہ ہوئی اور ہندو یونیورسٹی بنارس کے استادوں اور طالب علم نے گاندھی کی اپیل کا نوٹس نہ لیا جبکہ علی گڑھ یونیورسٹی بند کرانے کی کوشش مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی نے کی تو وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین نے اسکی شدید مخالف کی۔ علی گڑھ کے طلباءنے تعلیم ترک کر دی تو ایک نیا تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ قائم ہوا اور مسلمانوں کی مایوسی اس وقت زیادہ ہوئی جب گورکھ پور کے قریب ”چورا چوری“ کے افسوسناک واقعہ پر گاندھی نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور موتی لال نہرو کی بات بھی نہ سنی جو اس وقت اس تحریک کے تحت جیل میں تھے ۔ اہم بات ہے کہ تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت ختم ہو جانے کے بعد انگریزی حکومت نے مقدمہ چلا کر گاندھی کو بھی چھ سال کی قید سنا دی۔ محمد علی جناح نے تحریک کی ناکامی کے علی الرغم مسلمانوں کو بتایا کہ اس تحریک سے کافی نقصان ہوا ہے لیکن فائدہ یہ ہوا ہے کہ عام آدمی کا سیاسی شعور بیدار ہو گیا ہے اور ہندوستان میں ڈومینین حکومت کے فوری قیام کا مطالبہ بے خوفی سے ہونے لگا ہے۔“ یہ تجزیہ اس لئے اہم ہے کہ وہ اس سے قبل ناگ پور کے اجلاس کے بعد کانگریس سے الگ ہو گئے تھے۔ اس دور کی سیاست پر ان کا یہ تبصرہ بڑا معنی خیز ہے:
”میں حیران ہوں کہ میری ملی خودداری اور وفاق کو کیا ہو گیا تھا کہ میں کانگریس سے صلح اور مفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا۔ میں نے اسکے حل کےلئے اتنی مسلسل اور غیرمنقطع مساعی کیں کہ ایک انگریزی اخبار نے لکھا: ”مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد کے مسئلے سے کبھی نہیں تھکتے۔“ لیکن گول میز کانفرنس کے زمانہ میں مجھے اپنی زندگی میں سب سے بڑا صدمہ پہنچا جیسے ہی خطرہ کے آثار پیدا ہوئے.... ہندویت.... دل و دماغ کے حوالے سے .... اس طرح نمایاں ہوئی کہ اتحاد کا امکان ختم ہو گیا۔“
محمد علی جناح نے اپنا موقف کھل کر بیان کیا جس سے ہندوستانی سیاست میں ان کشادہ جہات اور بلند تر مقاصد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں:
”میں نے ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کےلئے اپنی بہترین کوششیں صرف کیں۔ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ بدنصیب ہندوستان کے یہ دو فرزند ایک دوسرے کو پہچانیں، سمجھیں اور باہمی رواداری اور محبت کے رشتے میں منسلک ہو جائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ہندوﺅں کے قلوب میں مسلمانوں کےلئے عزت و احترام اور مساوات اور رواداری کے جذبات موجود نہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان بھی ترقی کر کے انکے دوش بدوش آگے بڑھ سکیں۔ میری قوم پرورانہ کوششوں کو ہندوﺅں نے اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے ناکام بنانے کی سعی کی.... کانگریس کی آزادی کا مطلب اعلیٰ ذات کے ہندوﺅں کی آزادی ہے اور اس آزادی سے وہ دوسرے فرقوں اور قوموں کو محروم رکھنا چاہتے ہیں۔“ اس دور کے مسلمانوں کے رویے اور طرزعمل کو بھی محمد علی جناح نے نے گہری نظر سے دیکھا اور انکے منفی رویے سے جو مایوسی ہوئی تھی، اس کا اظہار بھی ان الفاظ میں کر دیا:
”.... مسلمان بے سہارا اور ڈانواں ڈول ہو رہے تھے۔ کہیں حکومت کے یاران وفادارانکی رہنمائی کےلئے میدان میں آ موجود ہوتے تھے۔ کہیں کانگریس کے نیازمندان خصوصی انکی قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے۔ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں لا سکتا۔ نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لندن میں ہی بودوباش کا فیصلہ کر لیا۔ پھر بھی ہندوستان سے اپنا تعلق قائم رکھا اور چار سال کے قیام کے بعد میں نے دیکھا کہ مسلمان خطرے میں گھرے ہوئے ہیں تو میں نے رخت سفر باندھا اور واپس ہندوستان پہنچ گیا۔“
محمد علی جناح 24اکتوبر 1935ءکو ہندوستان واپس آئے تھے لیکن اس سے قبل 4مارچ 1934ءکو دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو انہیں متفقہ طور پر اس کا صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔ اکتوبر 1934ءمیں وہ لندن ہی میں تھے لیکن بمبئی کے مسلمانوں نے انہیں ایک بار پھر مرکزی اسمبلی کےلئے بلامقابلہ چن لیا تھا۔ ان کی وطن واپس دراصل تحریک پاکستان کا صحیح معنوں میں نقطہ¿ آغاز تھا۔ اس وقت علامہ اقبال انہیں لکھ رہے تھے:
”آج ہندوستان میں آپ ہی وہ واحد مسلمان ہیں، جن کی ذلت سے مسلمان قوم اس طوفان میں محفوظ رہنمائی کی توقع رکھ سکتی ہے جو شمال مغربی ہند بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔“

ای پیپر دی نیشن