قائداعظم محمد علی جناح کی ذات ہمارے لئے ایک آزادقومی بقاءکا عظیم ملّی سرمایہ اور قومی ورثہ ہے۔یوں تو انگریزوں نے مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کو 1909ءکے ایکٹ کے تحت تسلیم کرلیا تھا لیکن اکھنڈ بھارت میں ہندو راج کاخواب دیکھنے والے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہ تھے۔پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے جو حضرت قائداعظم کی سیاسی بصیرت کی زندہ مثال ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایک آزاداسلامی مملکت کے قیام کا تصور کسی کے خلاف نہیں تھا بلکہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بازیاب کرنا تھا۔
راقم الحروف نے جب بھی تحریک پاکستان کے دوران ہر اول دستہ کے ایک سرگرم کارکن کے ناطے بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ سے ملاقات کا قرب کا شرف حاصل کیا لاریب انہیں ایک عظیم الشان اور عظیم شخصیت ہی پایا جو قول وعمل کے اثبات کی ایک نمایاں مثالی شخصیت تھے۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کی تدفین کے موقع پر فرمایا تھا کہ قائداعظم اورنگ زیب عالمگیر کے بعد براعظم پاک و ہند کے سب سے بڑ مسلمان تھے،آپ 25دسمبر 1876ءکو پیدا ہوئے اور گیارہ ستمبر 1948 کو آپکا انتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت قائداعظم کے آخری الفاظ ” اللہ ....پاکستان تھے لیکن انکی عظمت اور برتری کی یاد آج بھی پورے عالم اسلام میں زندہ ہے۔ وہ ایک ایسے اعتدال پسند انقلابی رہنما تھا جنہوں نے آزادی کی جنگ کے پودے کو خون جگر سے پروان چڑھایا اور قیام پاکستان سے پہلے اس خطہ ارضی کو اسلام کا قلعہ قرار دیا۔ اسلام کی گمشدہ عظمت اور اسلامی تعلیمات کی بحالی کیلئے ہندوستان میں دو قومی نظریہ کی اساس پر پاکستان کی بنیاد رکھی۔آزادی کی جدوجہد کے آغاز سے لیکر پاکستان کے قیام تک بابائے قوم نے اپنے اصولوں، کردار اور فرمودات سے ہماری رہنمائی فرمائی۔انہوں نے مسلمانانِ ہند میں قومیت کا حقیقی شعور بیدار کیا۔ حالانکہ انہیں ایسا کرنے میں پنڈت چانکیہ اور میکاولی کے پیروکار گاندھی اور چرچل کا صاف گوئی سے کئی مرتبہ مقابلہ بھی کرنا پڑا اور انکی چالوں کو ستھری سیاست سے مات دی۔
تحریک پاکستان ابھی ختم نہیں ہوئی یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آزادی کے متوالے پاکستان کے مقاصد اور اسکے قیام کی حقیقی روح کو حاصل نہیں کرلیتے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کسی فرد واحد کا ملک نہیں، بلکہ18کروڑبہادر اور غیور قوم کے پاس قائداعظم کی امانت ہے۔میرے نزدیک تحریک پاکستان کی کامیابی کا بڑا راز یہ تھا کہ ہمارے لیڈر بکے نہیں تھے۔ حضرت قائداعظم کی سوچ اگر ہمارے موجودہ سیاستدان کی طرح ہوتی تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔ وہ مشکل آن پڑنے پر مصلیٰ بچھا کر اللہ کے حضور میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے اور اللہ سے ہدایت و مغفرت طلب کرتے تھے۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ہم نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی .... قیادت میں حصول پاکستان کیلئے انگریز اور ہندو دونوں قوموں سے عسکری جنگ نہیں لڑی نہ اس سلسلہ میں پانی پت کی چوتھی جنگ ہوئی نہ ہی ہم نے جسمانی طورپرانگریز کو دھکیلتے ہوئے اس سمندر کی لہروں کے سپرد کیا ہم نے دونوں قوموں سے یہ جنگ فکری اور ذہنی محاذ پر لڑی اور وہ طریقہ اختیار کیا جو جمہوری عمل کے دائرہ میں آتا تھا۔1857ءکی جنگ آزادی میں ہم مسلمان انگریزوں سے اس لئے شکست کھاگئے تھے کہ ہمیں وقت کے تقاضوں کے مطابق ایسی قیادت میسر نہ تھی جو ہمیں فتح سے سرفراز کرتی۔ قائداعظم قانون کی بالادستی کے قائل تھے۔ کاش قائداعظم آج زندہ ہوتے جسکی بصیرت نے دوسوسال کی طویل جدوجہد کو سات سال میں ایک منزل سے آشنا کیا۔دنیا کا نقشہ.... ہوا ایک اسلامی مملکت وجود میں آئی وہ عظیم تھا۔ فولاد سے بھی مضبوط عزم دا ر ہمالہ سے بلند ارادوں کا مالک اپنا مشن مکمل کرکے چلا گیا....ع
نہ اُٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زارو ں سے
افسوس کہ پاکستان میں سیاست ون مین شو بن کر رہ گئی ہے جو پارٹیوں کی بجائے چند شخصیات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتو ں میں (سوائے چند ایک کے) قیادت کیلئے ایک ہی معیار کو اپنایاجاتا ہے اور وہ صرف جانشینی کا ہے۔ اگر کسی نے پارٹی پالیسیوں پر اعتراض کرتے ہوئے اپنا الگ دھڑا بنایا تو یہ بھی ون مین شو نکلا۔ تقسیم ملک کے وقت ولبھ بھائی پٹیل جو گاندھی کے بعد سب سے بڑے لیڈر تھے۔ سبھاش چندربوس۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد، ڈاکٹر راج گولاپ اچاریہ اور ابوالکلام آزاد و دیگرے کانگرس کے چوٹی کے رہنماﺅں میں شمار ہوتے تھے لیکن ان تمام کے ہاں سیاست وراثت میں نہیں گئی اور نہ ہی انکی سیاست وراثتی صورت میں ہندوستان کے عوام پر مسلط ہوئی۔
ہمسایہ ملک چین ہی کو لیجئے ماوزے تنگ اور چواین لائی اس صدی کے عظیم ترین رہنما تھے مگر ان کے بعد ہی وہاں ان کی وراثتی سیاست قائم نہ ہوئی۔اسی طرح روس میں سٹالن یا لینن کی اولادیں بھی سیاسی وراثت کو وراثتی عمل کے طورپر قبول کرنے سے گریزاں رہیں۔ جمال عبدالناصر کی بیٹی کو تو میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا کیونکہ اسکے نمبرمطلوبہ حد سے کم تھے۔ کیا ہماری تاریخ ہم سے روٹھ گئی ہے؟ ہماری آزاد پاکستان ریاست کس کی غلامی میں ہے؟ ان سوالات کے جواب میں اپنے قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں۔