اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کے رہا کئے جانے کے اعلان کی صرف رسمی اہمیت ہے کیونکہ ملا برادر پہلے سے آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ، ان کے ساتھ ہی مقیم ہیں، ملا برادر، ملاقاتیں کرنے اور روابط قائم کرنے میں بھی آزاد ہیں اور یہ اطلاعات تو بہت پہلے منظر عام پر آچکی ہیں کہ امریکی بھی اسلام آباد میں ان سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ ملا برادر کے معاملات سے واقف ایک شخصیت کے مطابق کچھ عرصہ قبل امریکی حکمت عملی تشکیل دینے والے مُصر تھے کہ ملا برادر کو ملا عمر کی جگہ افغان طالبان کا امیر مقرر کرایا جائے۔ یہ خواہش کرنے سے پہلے امریکی ایک اہم طالبان رہنما آغا جان معتصم کو زیر دام لا چکے تھے۔ آغا جان معتصم کراچی سے زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، وہیں دوران علاج امریکیوں نے ان سے رابطہ کیا، ترکی منتقل کیا اور پرآسائش زندگی کی سہولتیں مہیا کیں۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ ملا برادر کو بھی قابو کیا جاسکتا ہے لیکن ملا عمر کے معتمد اس جال میں نہیں پھنسے۔ اس ذریعہ کے مطابق رہائی ملنے کے بعد ملا برادر کے افغانستان جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کابل میں قیام کرنا ان شکوک کو ہوا دینے کا موجب بنے گا کہ ملا برادر نے کرزئی انتظامیہ سے ساز باز کرلی ہے۔