اسلام آباد(خبرنگار خصوصی+آئی این پی) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک طالبان کی طرف سے اے پی سی میں مذاکرات کے فیصلے کا خیرمقدم کر نے کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کئی طاقتیں خطے میں امن نہیں چاہتیں اور مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں وہ اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں، حکومت نے مذاکرات کا فریم ورک تیار کر لیا ہے، سیاسی قیادت نے مذاکرات کا اختیار حکومت کو دے دیا، طالبان سے پہلا رابطہ دونوں طرف سے مطالبات سامنے آنے کے بعد کیا جائے گا، ٹھوس مذاکرات چاہتے ہیں۔ محب وطن لوگ مذاکرات میں کردار ادا کر نے کو تیار ہیں، نیشنل سکیورٹی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے، آرمی چیف نے واضح کر دیا کہ ڈرون حملوں پر امریکہ سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا گیا، طالبان کمانڈر ملا برادر کو رہا کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، 12 سال لڑائی کر کے دیکھی اور اب زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے۔ وہ منگل کو یہاں پنجاب ہاﺅس میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ مکمل اتفاق رائے سے جاری ہوا۔ میڈیا میں ایسی خبریں دیکھیں جو اجلاس میں نہیں ہوئیں۔ کراچی کے حالات میں بہتری آ رہی ہے۔ اچھے ماحول میں پارلیمانی پارٹی لیڈرز کی اے پی سی ہوئی جن کو دعوت دی گئی تھی، سب نے شمولیت اختیار کی ان کے مشکور ہیں۔ 5 رہنماﺅں چوہدری شجاعت، ڈاکٹر فاروق ستار، خورشید شاہ، پروفیسر ساجد میر اور آفتاب شیرپاﺅ بھی بیرون ملک کے شیڈول ترک کر کے اجلاس میں آئے۔ انہوں نے کہا کہ جس جذبے سے اے پی سی ہوئی اس پر اطمینان ہوا اور سیاستدانوں کے جذبات دیکھ کر خوشی ہوئی جو موقف اختیار کیا گیا وہ پارٹی مفاد سے زیادہ قومی مفاد نظر آ رہا تھا۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ اتفاق رائے دو تین دنوں کی کوششوں سے سامنے نہیں آیا دو ماہ کی کاوشوں سے آیا۔ وزیر اعظم نے لوڈ شیڈنگ کے ساتھ سب سے زیادہ توجہ سکیورٹی پر دی۔ لیڈروں کو انفرادی طور پر بھی اعتماد میں لیا جاتا رہا اس اے پی سی میں سکیورٹی کی ایشو پر اختلاف سامنے نہیں آیا۔ عسکری قیادت نے بھی ہر بات سے اتفاق کیا۔ آرمی چیف کی زبان سے صحافیوں کی طرف سے غلط فہمیاں پھیلانے کا لفظ نہیں سنا۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی باتوں نے سیاسی قیادت کو اتفاق رائے کی طرف متحرک کیا۔ مذاکرات کا راستہ اختیار کر نا پاکستان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اس میں کوئی بیرونی دباﺅ اور عمل دخل شامل نہیں۔ جو ڈرافٹ حکومت نے تیار کیا اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کی گئی۔ عسکری قیادت نے واضح انداز میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ کانفرنس میں مذاکرات کا فیصلہ کسی غیر ملکی طاقت کو خوش کرنے اور فوجی آپریشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے نہیں کیا گیا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والی پوری قیادت نے مذاکرات کے راستے کو ہی ملک کی بہتری کا راستہ سمجھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی سرحدوں پر آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے اس میں ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں اس کو روکنے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ معاملہ شروع کیوں ہوا۔ یہ سب نائن الیون کے رد عمل کے طور پر ہوا۔ حملہ آوروں میں کوئی افغانی اور پاکستانی شامل نہیں تھا۔ 2004ءتک پاکستان میں خودکش حملے نہیں ہوتے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹر نے غیر ملکی دباﺅ پر فوج کو فاٹا میں داخل کیا جس کے ردعمل کے طور پر دہشت گردی کی لہر شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے‘ دھمکی دینا بہت آسان ہے مگر ہم نے حکمت عملی اور دانشمندی سے ملک کو اس صورتحال سے نکالنا ہے۔ ڈرون حملوں اور سابق صدر پرویز مشرف کے فوجی کردار کے حوالے سے ہمارا موقف آج بھی ماضی والا ہے۔ فاٹا میں گاﺅں کے گاﺅں نیست و نابود ہوچکے ہیں اب زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ لڑائی کا ردعمل لڑائی ہوتا ہے۔ بارہ سال لڑائی کرکے دیکھ لیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے پیغام کا طالبان نے چند منٹوںمیں خیرمقدم کیا ہم بھی طالبان کے پیغام کو اچھا شگون قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے نام پر پاکستان کو آگ اور خون کی ہولی سے نکالیں گے۔ حکومت کو مذاکرات کا طریقہ اور فریم ورک تیار کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مذاکرات کا فریم ورک تیار ہے ہر چیز قومی مفاد میں ہوگی۔ کو ئی چیز چھپائی نہیں جائے گی۔ جب باضابطہ مذاکرات ہوئے تو میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔ جن امور پر مذاکرات ہوں گے ان کا بھی بتایا جائے گا۔ بہت سی طاقتیں علاقے میں قیام امن کے حق میں نہیں بلکہ احسن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں بھی طالبان کے کسی گروپ سے مذاکرات نہ کرنے کی بات نہیں ہوئی۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے جو بھی پیشرفت ہوئی اس کا میں خود اعلان کروں گا۔ گھمبیر دور سے گزر رہے ہیں میڈیا کی ایک خبر مذاکرات عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہے اور اسے تقویت بھی دے سکتی ہے۔ مذاکرات میں بوقت ضرورت سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیتے رہیں گے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کا پہلا ڈرافٹ تیار کرلیا اس میں صوبوں کی تجاویز کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں گذشتہ چار روز کے دوران رینجرز نے 74 ٹارگٹڈ ریڈ کئے۔ تین جنرل ہولڈ اپ کئے‘ 158 جرائم پیشہ افراد گرفتار کئے ان میں کئی ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خور اور دیگر جرائم پیشہ افراد شامل ہیں۔ 111 ہتھیار برآمد کئے گئے۔ مختلف قسم کی 1862 گولیاں برآمد کیں۔ گزشتہ چار روز کے دوران 24 گھنٹے ایسے بھی گزرے جہاں زیرو قتل کے واقعات ہوئے۔ ٹارگٹڈ کارروائی اور مانیٹرنگ جاری رہے گی، گرفتار شدگان اپنی سیاسی وابستگی بتاتے ہیں کسی ایک پارٹی نے بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ گزشتہ پانچ روز کے دوران کراچی میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا فریم ورک تیار ہے مذاکرات حکومت کی چھتری تلے ہوں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق اپنے فیصلے خود کرنے ہیں۔ مذاکرات کی پیشکش الیکشن کے بعد تحریک طالبان کی طرف سے آئی تھی مگر ڈرون حملوں نے اس کو سبوتاژ کر دیا۔ ٹی ٹی پی نے پھر اس پیشکش کو واپس لے لیا تھا مگر حکومت نے اس کے لیے کوششیں کیں۔ رابطوں کے لیول کا تعین کیا جائے گا اور پہلا رابطہ دونوں طرف سے سامنے آنے والی ڈیمانڈ کے بعد ہو گا۔ جب مذاکرات کرنے ہوتے ہیں تو مذاکرات کی باتیں کی جاتی ہیں جبکہ لڑائی کرنی ہوتی ہے تو پھر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ڈرون حملوں کے معاملہ کو عالمی سطح پر لے جانے کے لیے قانونی پیچیدگیوں کو دور کیا جائے گا۔ بلوچستان میں مذاکرات کا اختیار وزیر اعلیٰ بلوچستان کو دیا گیا۔ عمران خان نے ڈرون حملوں کے امریکہ سے معاہدے سے متعلق پوچھا مگر آرمی چیف نے بتایا کہ اس حوالے سے کسی معاہدے کا انہیں کوئی علم نہیں۔ ملا برادر کی رہائی کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اندھیرے میں کوئی سوئی تلاش نہیں کر رہے۔ علاقے میں قیام امن کے لیے جو کوئی کردار ادا کر سکا وہ کرے گا اور کر رہا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی کمیٹی کی رپورٹ ہمیں روزانہ مل رہی ہے۔ ایک لیگل کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی سربراہی زاہد حامد کر رہے ہیں۔ یہ کمیٹی سیکورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید اختیارات دینے سے متعلق غور کررہی ہیں ۔ حکومت نئی قانون سازی بھی کرے گی۔ اسلام آباد میں بھتہ خوری سے متعلق آئی جی پولیس نے وضاحت کی ہے کہ میں نے بیان بھتہ خوری کے حوالے سے نہیں دیا۔ طالبان نے مذاکرات کے حوالے سے ابھی کوئی مطالبات پیش نہیں کیے۔ مذاکرات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ بے شمار محب وطن لوگ جو مذاکرات میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں غلط فہمیوں سے ان کی سکیورٹی کا مسئلہ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے ابھی تک کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔