آج 11 ستمبر ہے۔ حضرت قائدِاعظمؒ کا یومِ وصال جبکہ25 دسمبر کو بانی¿ پاکستان کا یومِ پیدائش منایا جاتا ہے۔ دراصل دونوں مواقع پر بیرونی مُلکوں کو بتانا مقصود ہوتا ہے کہ پاکستان کے لوگ اپنے اُس محسن کو نہیں بھولے جِس نے نہ صِرف ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھُڑایا بلکہ ہندوﺅں کے غلام ہونے سے بھی بچایا۔ قائدِاعظم کے بعد ہمارے کئی فوجی اور جمہوری حُکمرانوں کو اُن کے عقِیدت مندوں نے ”قائدِاعظم ثانی“ کے طور پر مشہور کرنے کی کوشش کی لیکن محرومِ اقتدار ہونے کے بعد اِس طرح کے کئی ” قائدِاعظم ثانی“ جیتے جی مُردہ تسلیم کر لئے گئے اور وہ راندہ¿ دُنیا ہو گئے۔ یہاں تک کہ اُن کے وارث بھی اُن کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے نہیں جاتے۔ لاہور میں مُتحدّہ ہندوستان کے دو مسلمان بادشاہ قُطب اُلدّین ایبک اور نور اُلدّین جہانگیر کے مقبرے ہیں اور جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں کا مقبرہ بھی۔ قُطب اُلدّین ایبک ” لکھّ بخش“ کے نام سے مشہور تھا اور نور اُلدّین جہانگیر اپنی ”زنجیرِ عدل“ کی وجہ سے لیکن اُن کے خستہ حال مقبروں پر کوئی بھی فاتحہ پڑھنے، پھُول چڑھانے اور چراغ جلانے نہیںجاتا۔ خود ملکہ نور جہاں نے مرنے سے پہلے یہ شعر کہا تھا کہ
”برمزارِ ما غریباں نَے چراغے نَے گُلے!“
یعنی ہم غریبوں کے مزار پر کوئی بھی چراغ جلانے اور پھُول چڑھانے نہیں آتا۔ فرعونِ مِصر کے پاس سیاسی قوّت (حُکمرانی) تھی، قارُون کے پاس اقتصادی قوّت (دولت) تھی اورحضرت موسٰی ؑ کے پاس عِلم کی قوّت۔ پھر چشمِ فلک نے عِلم کی قوّت کو، سیاسی اور اقتصادی قوّتوں پر غالب آتے دیکھا۔ پیغمبرِ انقلاب کی زوجہ¿ محترمہ حضرت خدیجة اُلکبریٰ کی کئی ملکوں سے تجارت تھی۔ وہ ”ملائکة اُلعرب“ کہلاتی تھیں۔ اُن کے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا تھا اور لامحدود دولت جو شادی کے بعد انہوں نے اپنے شوہرِ نامدار سے قدموں میں رکھ دی تھی۔ پھر وہ ساری دولت غُلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرانے اور اُن کی شادیوں پر خرچ کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے پیغمبر کے بارے میں کہا گیا کہ
”سلام اُس پر کہ جِس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا“
خلیفہ¿ اسلام اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ، مدینہ منوّرہ کے عام مزدور کے برابر تنخواہ لیتے تھے۔ انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں کُل 6 ہزار درہم بطورِ تنخواہ وصول کئے اور انتقال سے پہلے وِصیّت کر دی تھی کہ ”میری جائیداد فروخت کر کے 6 ہزار درہم بیت اُلمال میں جمع کرا دئیے جائیں۔“ خلیفہ¿ اسلام دو م حضرت عُمر بن الخطابؓ کو بھری مجلس میں اپنے لمبے قد کے مطابق اپنے کُرتے کے کپڑے کا حساب دینا پڑا۔ خلیفہ¿ سوم حضرت عثمانؓ نے اپنے وسائل کا ایک بڑا حِصّہ رفاہِ عامہ کے لئے وقف کر رکھا تھا اور خلیفہ¿ اسلام چہارم فاتح خیبر حضرت علیؓ کے پاس تو عام مزدور سے بھی کم وسائل تھے۔ خلیفہ کی حیثیت سے حضرت علیؓ نے اپنے گورنر مالِک بن اُشتر کو ایک خط میں لِکھا تھا کہ ”اگر یہ کُرسی جِس پر تُم بیٹھے ہو مستقل ہوتی تو تُم تک کیسے پہنچتی؟“ قائدِاعظم گورنر جنرل آف پاکستان کی کُرسی پر بیٹھے تو انہوں نے کمال یہ کِیا کہ اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کر دِیا۔ قائدِاعظم کا دوسرا کمال یہ تھا کہ انہوں نے اپنے شانہ بشانہ قیامِ پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی اپنی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ اب صورت یہ ہے کہ حُکمرانوں اور حزبِ اختلاف کے قائدین کے تمام رشتہ دار بلاواسطہ یا بالواسطہ اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔
پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا، قائدِاعظم کا خواب تھا لیکن یہ خواب اِس لئے شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو سکا کہ اُن کے بعد آنے والا کوئی بھی فوجی یا جمہوری لیڈر اُن کی طرح مُخلِص نہیں تھا اور نہ ہے۔ قُرآنِ پاک میں کہا گیا ہے کہ ”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں (عوام کی بہبود پر) خرچ نہیں کرتے، قیامت کے دِن اُسی سونے اورچاندی کودہکتی ہُوئی آگ میں تپا تپا کر اُن کی پیشانیوںاور پُشتوں پر داغا جائے گا۔“ سیرت اُلنبی کے جلسوں اور خُلفائے راشدین کی یاد میں مُنعقدہ تقاریب میں مختلف مسالک کے عُلماءقرآن پاک کی اِس آیت کی تفسیرکیوں نہیں کرتے؟ اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے امیر ترین مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر اور قبر کے عذاب سے کیوں نہیں ڈراتے؟ اِس لئے کہ وہ خود نوابوں اور جاگیر داروں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں اور دُنیا دار سیاستدانوں کی تقلید کرتے ہیں۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے جج صاحبان کا فتویٰ ہے کہ ”اسلام میں جاگیرداری حلال اور جائز ہے۔“ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور اُس کے ارکان نے (فی الحال) اِس مسئلے کو چھیڑا ہی نہیں۔ پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری، تیسری اور چوتھی شادی ہی اُن کے لئے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ سُپریم کورٹ، ہائی کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل میں ابھی تک اِس مسئلے پر غور ہی نہیں کِیا گیا کہ جن لوگوں کے آباﺅ اجداد نے، تُرک، پٹھان اور مُغل بادشاہوں اور اُن کے بعد انگریزوں اور سِکھّوں کے لئے ”خصوصی خدمات“ انجام دے کر جاگیریں حاصل کی تھیں اُنہیں کیوں نہ بحقِ سرکارضبط کو لِیا جائے؟“ اور جو لوگ قرضے لے کر ہڑپ کر جاتے ہیں اور لوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں میں جمع کرا دیتے ہیں اُن کا کسی نے کیا بیگاڑ لِیا؟
قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں اپنی کئی تقریروں میں جاگیر داری اور سرمایہ داری کو ناپسندیدہ قرار دِیا تھا۔ 24 مارچ 1943ءکو دہلی میں اجلاسِ مسلم لیگ سے خطاب کرتے ہُوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”اگر جاگیر دار اور سرمایہ دار عقل مند ہے تو انہیں نئے حالات میں (قیامِ پاکستان کے بعد) خود کو ڈھالنا ہو گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر خدا اُن کی حالت پر رحم کرے۔ ہم اُن کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔ لیکن قائدِاعظم کو جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کو سِیدھا کرنے کا موقع نہیں مِل سکا۔
11 ستمبر1971ءکو مزارِ قائدِاعظم پر تقریر کرتے ہُوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا ”بول اے میرے قائد! سِتم کی یہ رات کب ڈھلے گی؟“ قائدِاعظم کچھ نہیں بولے۔ پھر 16 دسمبر 1971ءکو پاکستان دولخت ہو گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کے وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیرِاعظم کا منصب سنبھال لِیا اوراُس کے بعد سوِیلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر، صدرِ پاکستان اور پھر وزیرِاعظم بھٹو صاحب کے بعد کئی صدور اور وزرائے اعظم آئے اور اپنی اپنی بولیاں بول کر چلے گئے۔ انہوں نے جب بھی مزارِ قائد پر پھولوں کی چادریںچڑھائیں اور چراغ بھی جلائے اور جب انہوں نے ”بول اے میرے قائد“ کا جملہ ادا کِیا تو قائدِاعظم چُپ رہے انہوں نے کوئی جواب نہیں دِیا۔ اب عوام اِس انتظار میں ہیں کہ اُن کے مسائل کب حل ہوں گے؟ اور قائدِاعظم کے خواب کے مطابق پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت کی شکل کب اختیار کرے گا؟ قائدِاعظم کب بولیں گے؟