رب عظیم کی کائنات بے حد اسرار و علوم سے آراستہ ہے۔ یہاں ہر آن اک نیا جہان بنتا ہے جیسے جیسے دریافت کا پرندہ اڑان بھرتا ہے اک نیا آسمان وجود میں آتا ہے۔ یوں تو سارے علوم اس دنیا میں اپنی پوری سچائیوں کیساتھ موجود ہیں مگر متلاشیان علم ان کو جاننے کیلئے اپنی پوری زندگیاں لگا دیتے ہیں پھر بھی جس ملزم سے قطرہ کشید کر پاتے ہیں یہ اسرار علوم کے متلاشی اور جاہر ایم اے ملک صاحب نے پامسٹری پر بے شمار کتابیں لکھیں، علم دست شناسی کے حوالے سے ان کی علمی بصیرت اور قابلیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے علم دست شناسی اور نفسیات کے حوالے سے بے شمار رسائل میں بھی لکھا اور اک مدت وہ نوائے وقت سے بھی وابستہ رہے پچھلے دنوں مجھے انکی ایک کتاب ’’ہاتھ کی زبان‘‘پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ارادہ تو یہی تھا کہ ایک نظر دیکھوں اور نہ پڑھوں کیونکہ بہت سارے لوگوں کی طرح میں بھی علم دست شناسی پر کچھ خاص یقین نہیں رکھتی تھی۔ مگر ایک چیز نے جیسے مجھے کتاب سے باندھ سا دیا ہو فہرست میں لکھا ہوا تھا۔ ’’وہ ہاتھ جس نے پاکستان بنایا‘‘ میں نے سب سے پہلے فوری فوری اسی باب کو پڑھا پھر ساری کتاب پڑھ ڈالی۔ علم دست شناسی کے حوالے سے میری سوچ یکسر تبدیل ہوئی۔ وہ قائد اعظم کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’خبر ملی کہ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ہیرو سیاحت کی غرض سے جموں کے راستے سرینگر (کشمیر) آ رہے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر مسلمانوں نے کن احساسات و جذبات کا اظہار کیا اس کا اندازہ اس عظیم الشان استقبال سے کیا جا سکتا ہے۔ جس کی نظیر جموں و کشمیر کی تاریخ میں نہیں ملتی میرے لئے یہ موقعہ بہت ہی اہمیت کا حامل تھا بات یہ ہے کہ بڑے بڑے آدمیوں کے ہاتھوں کا مطالبعہ میرا سب سے بڑا شوق رہا ہے۔ یہ شوق مجھے اس وقت سے ہے۔ جب میں پرنس آف ویلز کالج جموں میں ابھی فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔ قائد اعظم کی آمد کی خبر سن کر دل میں شدت سے خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح انکے ہاتھ کی ایک جھلک دیکھ لی جائے۔ مگر اس بے مثل ہاتھ کی جس سے دس کروڑ مسلمانوں کی قسمت وابستہ تھی اسکی ایک ادنی جھلک دیکھ لینا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ہاتھوں کی لکیریں پڑھنے والے مصنف نے قائد اعظمؒ کے ہاتھوں تک کیسے رسائی حاصل کی یہ سارا واقعہ بے حد دلچسپ اور محبت سے لبریز ہے اس کیلئے کتاب کو پڑھنا ضروری ہے۔ غور طلب اور خوبصورت بات یہ کہ وہ ہاتھ جس سے کروڑوں مسلمانوں کی قسمت واستہ تھی ہم پاکستانیوں کو اس بات پر فخر ہے کہ بابائے قوم کے ہاتھوں پر ہماری قسمت کی لکیر موجود تھی۔ آج جب 14 اگست کے حوالے سے سیاسی کھلاڑیوں اور مداریوں کو میدان سیاست میں اتر ہوا دیکھ رہی ہوں تو اللہ کی پناہ چاہتی ہوں کہ اللہ ہماری قسمت کی لکیر ان کے ہاتھوں میں نہ بنائے آمین!
1928ء میں جموں کشمیر میں پیدا ہونیوالے ایم اے ملک 2013ء میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے اللہ پاک انکی مغفرت فرمائیں آمین جو لوگ ان سے انکی زندگی کے آخری ایام میں ملے وہ انکے بارے کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی وہ ہاتھوں کی لکیروں کو اسی شوق و جذبہ سے پڑھتے تھے جس جذبہ کے تحت وہ قائد اعظمؒ کے سکیورٹی گارڈ کے دستہ میں شامل ہوئے تھے۔