عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کا نہایت خوبصورت قول ہے کہ ’’مردانگی یہ نہیں ہے کہ مشکلات پیدا ہوں اور ان کا مقابلہ کیا جائے، مردانگی یہ ہے کہ مشکلات پیدا نہ ہونے دی جائیں‘‘۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکمرانوں سیاستدانوں نے کبھی بھی ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات و خدشات کا مقابلہ کرنے میں پیش بندی نہیں کی اور بلامبالغہ ان میں وہ صلاحیتیں ہی نہیں جو ہمارے حقیقی رہنما، مربی و محسن اور بیسویں صدی کے بے مثال مخلص و نڈر قائد اعظمؒ میں تھیں۔ آج حکمران سیاستدانوں کو اللہ تعالیٰ نے جن مادی وسائل سے نوازا ہے حتی کہ ان کے تمام متوسلین بھی انہی کے پر وردہ ملکی مسائل کو حل کرنا تو کجا ان میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے صنعتکار، تاجر، سرمایہ کار اور جاگیر دار حکمران سیاستدان قائد اعظم کی بے مثال سیاسی و آئینی زندگی کا مطالعہ کر کے ان سے رہنمائی لیتے۔ قائد اعظم نے وطن عزیز کے حصول کیلئے جہد مسلسل میں انگریزوں، ہندوئوں اور انہی کے پروردہ بیشتر نام نہاد علماء کا نہایت جرات و استقامت سے مقابلہ کیا۔ اور سیاسی و آئینی مسائل کو حل کرنے میں کمال بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ چند واقعات پیش خدمت قارئین ہیں۔ فیصلہ خود کر لیں قائد اعظمؒ کی فہم و فراست کے قریب سے بھی موجودہ حکمران نہیں گزرے۔جنگ عظیم دوم میں جب جاپانی افواج برما پہنچ کر ہندوستان کے دہانے پر پہنچ گئیں اور اتحادی افواج اعتزال کا شکار تھیں تو کانگرس نے اگست 1942ء میں سیاسی فائدہ کیلئے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک اس انداز سے شروع کی کہ پورے ملک کے طول و عرض میں ہنگاموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عدم تشدد کے نام نہاد گاندھی نے اعلان کیا ’’اگر خانہ جنگی ناگزیر ہے تو ہم اسے بھی برداشت کر لیں گے ہماری بغاوت آخری بغاوت ہوگی۔ ہماری جنگ فیصلہ کن جنگ ہوگی جس میں نہ پسپائی کا سوال ہو گا اور نہ التوا‘‘۔ گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل حکومت کو دبائو میں لا کر ’’رام راج‘‘ کے قیام کیلئے ہندوئوں کو تشددپراکسا رہے تھے۔ وہ لمحات مسلمانوں کیلئے بہت بڑی آزمائش بن رہے تھے۔ قائد اعظمؒ نہایت مستعد اور چاک و چوبند تھے۔ آلہ آباد میں 1942ء اگست میں ہی مسلم لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ’’ہندوئوں کے نعرہ تشدد کے جواب میں تاریخی نعرہ عطا کیا۔ ’’تقسیم کرو اور چلے جائو‘‘۔ ان کا فرمان مسلمانوں نے اپنا دستور آزادی بنا لیا۔ گاندھی اور کانگرسی قیادت قائد اعظم کے جوابی حملہ کی تاب نہ لا سکی۔ گاندھی نے پھر وہی متحدہ قومیت کی رٹ اور مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے مسائل کے حل کیلئے آئندہ کی حکومت اور ہندوئوں کے ساتھ تعاون کو مشروط کرنے کیلئے قائد اعظم کو قائل کرنا چاہا۔ وہ وقت بہت ہی کٹھن تھا مگر قائد اعظم نے بصیرت بنی لندن ’’ نیوز کر انیکل‘‘ کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا۔’’جو پیش کش ہمیں کی گئی ہے یہ عقل و فہم کی توہین ہے۔ ہندو مسلم اختلافات کو حل کرنے کا حقیقت پسندانہ عملی حل نہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہندوستان کو پاکستان اور ہندوستان دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔سارے صوبہ سرحد، بلوچستان، سندھ، پنجات، بنگال او آسام کو مسلم علاقے تسلیم کر لیا جائے۔ دونوں قومیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ پاکستان میں ہندو اقلیتوں اور ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کیساتھ اچھا سلوک کریں۔ اگر وہ ہم پر اعتماد کریں تو ہم اڑھائی کروڑ مسلمانوں کوان کے اعتماد پر چھوڑ سکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہندو اس قسم کا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں انہیں اقتدار حاصل ہو وہ ہماری مکمل آزادی پر ہرگز رضا مند نہ ہوں گے‘‘۔
قائد اعظم کی بصیرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر آج بھی ہم موجودہ حالات میں حقائق کا جائزہ لیں تو گزشتہ 67ء برس سے بھارتی قیادت ہماری حقیقی آزادی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور ہمارے ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے اور نہیں تو ہمارے سیاستدان ہمارے محسن، محافظ و مجدد نظریہ پاکستان امام صحافت جناب مجید نظامیؒ کی سوچ پر عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی سالمیت اور استحکام کی خاطر بھارت سے راہ رسم بڑھانے میں احتیاط سے کام لیں۔ اور قائد اعظم کی فہم و فراست سے کچھ نہ کچھ رہنمائی ضرور لیں۔
قائد اعظمؒ… صاحب فہم وذکاء
Sep 11, 2014