محمد علی جناح نے1934ءمیں مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔24 اکتوبر1935ءکو وہ ہندوستان واپس آگئے اور انہوں نے مسلم لیگ کو منظم کرنا شروع کردیا۔ ہندوستان واپس آکر مسلم لیگ کی تنظیم نو کے لئے ابھی انہوں نے تھوڑی ہی مدت کام کیا تھا کہ حکومت نے 37۔1936 کے انتخابات کا طے کر لیا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ نے جمعیة العلمائے ہند سے اس بنیاد پر سمجھوتا کرلیا کہ خالص مذہبی معاملات میں ان کی رائے کو مناسب اہمیت دی جائے گی۔ دراصل یو پی میں انتخابات کے لئے جمعیة العلمائے ہند نے چوہدری خلیق الزماں کے ساتھ مل کر” مسلم لیگ یونیٹی بورڈ“ کے نام سے الیکشن لڑنے کا طے کرلیا تھا۔ چوہدری خلیق الزماں اس بورڈ کے سیکرٹری تھے۔ فروری1937 میں چوہدری خلیق الزماں اور بورڈ کے کئی دیگر ارکان دہلی میں قائد اعظم سے ملے اور قائد اعظم نے ان سے وعدہ کرلیا کہ اگر وہ مسلم لیگ میںآملیں تو یو پی کے پارلیمنٹری بورڈ میں انہیں اکثریت دے دی جائے گی۔ چنانچہ وہ سب مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ قائد اعظم کی یہ پالیسی ان کی اس سوچ کی غماز تھی کہ اگر مسلمان مسلم لیگ کے پر چم تلے اکٹھے ہوکر الیکشن لڑیں گے تو پھر وہ ہندوکانگریس کے مقابلے پر ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے اور انہیں مسلمانوں کے حقوق کے لئے جدو جہد میں بہت تقویت ملے گی۔ مگر لیاقت علی خاں نے اس امر پر سخت برہمی کا اظہار کیا کہ یو پی میں انہیں مسلم لیگ کے امیدوار چننے کا ختیار نہیں رہے گا۔ تاہم ،قائداعظم نے اپنا فیصلہ لیاقت علی خاں کے خلاف دیا۔ لیاقت علی خاں احتجاجاً یو پی پارلیمانی بورڈ کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر کچھ مدت کے لئے انگلستان چلے گئے۔واپس آکر انہوں نے مسلم لیگ سے ٹکٹ لئے بغیرانتخاب لڑا اور کامیاب ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں مسلم لیگ نے تمام حلقہ ہائے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے۔ بعد میں وہ مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یہ بات لیاقت علی خاں کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ اس اختلاف کے زمانے میں بھی وہ محمد علی جناح کو ہندوستانی سیاست کا ڈسر ائیلی(Disraeli)‘ نہ بکنے والا سیاست دان اور سیاست کے اسرارورموز کو سمجھنے والا مدبر کہتے رہے۔
لیاقت علی خاں نومبر1936ءمیںآل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور ایک مختصر مدت کے سوا قیام پاکستان تک اس عہدے پر فائز رہے۔1940ءمیں انہیں مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کا ڈپٹی لیڈر چن لیا گیا۔ محمدعلی جناح‘ لیگ گروپ کے لیڈر تھے۔1940ءکے بعد‘ اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے وہ اسمبلی کے اجلاس میں کم شرکت کرتے تھے۔ اس لئے عملی طور پر لیاقت ہی اپنے گروپ کے قائد تھے۔ اس کے باو جود انہوں نے تحریک پاکستان کے سلسلے میں اگست1942ءسے اپریل1943ءتک چودہ ہزار میل کاسفر کیا۔ مارچ1940ءمیں لاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور جہاں قائداعظم اور دیگر مسلم رہنماو¿ں نے اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔ لیاقت علی خاں نے مسلمانوں کے نئے ملک کے بارے میں مندوبین کو مطمئن کیا۔1943ءمیں مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس میں قائداعظمؒ نے کہا” لیاقت علی خاں میرا دایاںبازو ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میںدن رات ایک کر کے کام کیا ہے اور شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کتنی بھاری ذمے داری سنبھالی ہوئی ہے۔ سب مسلمان ان کی عزت کرتے اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دوسرے نواب بھی ان کی پیروی کریں گے“۔ وہ اپنے یا کسی اور کے اختلاف رائے سے قائداعظم کوآگاہ کردیتے تھے لیکن عمل وہ انہی کے فیصلے پرکرتے تھے۔ جیسا کہ قائد اعظم نے کہا تھا وہ ان کا دایاں بازو تھے۔
26 اکتوبر1946ءکو مسلم لیگ کے نامزد کردہ پانچ ارکان نے ہندوستان کی عبوری حکومت کے لئے حلف اٹھایا تو لیاقت علی خاں فنانس ممبر ہوگئے۔ 5اگست1947ءکو ماو¿نٹ بیٹن نے ایک اجلاس بلایا جس میں پنجاب سی آئی ڈی کے ایک افسر نے( سردار پٹیل)‘ قائد اعظم اور لیاقت علی خاںکی موجودگی میں بتایا کہ اس ادارے کی اطلاع کے مطابق سکھ لیڈر ماسٹر تاراسنگھ کی سرکردگی میں انتہا پسند سکھوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ مل کر جناح کو ہلاک کرنے کی سازش کی ہے۔ 14اگست 1947ءکو نامعلوم ہندو اس راستے پر جہاں سے جناح کی کار گزرے گی ہجوم میں کھڑے ہوں گے اور کھلی کار پر ہینڈ گرینیڈ پھینک کر انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح جو غیض و غضب کی لہر دوڑے گی، اس سارے برصغیر میں وحشیانہ خانہ جنگی شروع ہو جائےگی جس میں آخر کار ہندو جو مسلمانوں سے تعداد میں بہت زیادہ ہیں کامیاب ہوں گے۔ یہ سن لیاقت علی خان انتہائی برہمی سے مطالبہ کیا کہ تمام سکھ رہنماﺅں کو گرفتار کرلیا جائے۔ ماو¿نٹ بیٹن نے کہا کہ میں پنجاب کے گورنر سر ایون جنکنز اور مغربی اور مشرقی پنجاب نامزد گورنروں کے مشورے کے بعد ہی اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھا سکوں گا۔ اس پر لیاقت علی خان اپنی کرسی سے اچھلے اور انہوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ قائداعظم کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ باﺅنٹ بیٹن نے کہا اگر آپ کے یہی جذبات ہیں تو میں کھلی کار میں جناح کے ساتھ بیٹھوں گا اور ان کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاﺅں گا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے کوشش کی کہ قائداعظم جلوس کا پروگرام منسوخ کردیں یا بند کار میں کراچی کی سڑکوں سے گزر نے پر تیار ہو جائیں لیکن وہ نہ مانے۔
12 اگست 1947ءکو لیاقت علی خاں کی تجویز پر پاکستان کی دستور ساز اسمبلی طے کیا کہ 15 اگست سے محمد علی جناح کو تمام سرکاری کاغذات میں قائداعظم محمد علی جناح لکھا جائے۔ قائداعظم نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے طور پر لیاقت علی خان کو چنا اور اس اعزاز میں وہ منفرد ہیں۔ 15 اگست 1947ءکو انہوں نے حلف اٹھالیا۔وہ تقریباً چار سال پاکستان کے وزیراعظم رہے، 15 اگست 1947ءسے 16 اکتوبر 1951ءتک۔
11 ستمبر 1948ءکو قائداعظم وفات پاگئے۔ ان کی وفات پر لیاقت علی خاں نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا، مجھے اس میں ذرابھی شبہ نہیں کہ تاریخ قائداعظم کا شمار دنیا کی عظیم ہستیوں میں کرے گی۔ دنیا میں کم آدمیوں کو یہ نصیب ہوا ہے کہ وہ ایک عظیم الشان کام کو ہاتھ میں لیں اور اپنی ہمت، عزم اور دانش سے اس کو اپنی زندگی ہی میں پروان چڑھتا دیکھیں قائداعظم نے نہ صرف پاکستان کا نصب العین مسلمانوں کے سامنے پیش کیا بلکہ اس کیلئے جدو جہد کر کے دنیا میں سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم کردی۔ قائداعظم برگزیدہ ہستیوں میں سے تھے جو دنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔ اپنی تمام سیاسی زندگی میں انہیں ملت اسلامیہ کی بہبود منظور تھی وہ اسی کے لئے کوشاں رہے۔قائداعظم کی وفات سے جو صدمہ قوم کو پہنچا اور جو رنج سب پر طاری ہے مجھے اس کا اندازہ ہے۔ لیکن مجھے جو صدمہ ہوا اور جس کرب میں میں مبتلاہوں، اس کا کوئی اندزاہ نہیں کرسکتا۔
یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ستمبر 1948ءمیں ڈاکٹروں کے یہ کہہ دینے کے بعد کہ اب کوئی معجزہ ہی قائداعظم کو بچا سکتا ہے۔ جب انہیں زیارت سے کراچی لایا گیا تو ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کرنے کے لئے، لیاقت علی خاں سمیت، کوئی بھی موجود نہ تھا۔ لیکن محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ”مائی برادر“ میں لکھتی ہےں کہ یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ان کے استقبال کے لئے کوئی شخص ہوئی اڈے پر نہ آئے۔
قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے تعلقات تقریباً ربع صدی سے تھے۔ قائداعظم کی بے مثل رہنمائی میں پاکستان قائم ہوا اور اس جدو جہد میں لیاقت علی خاں ان کا دایاں بازوں تھے۔ قائداعظم نے ان کو پاکستان کا پہلا وزیراعظم چنا اور اس طرح یہ لیاقت علی خاں کا منفرد اعزاز ا۔ وہ بڑے خلوص سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔