پروفیسر ڈاکٹرلیفٹیننٹ کرنل الٰہی بخش پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور اور قائد کے خصوصی معالج کی آخری کوششیں ناکام نظر آنے لگی تھیں۔ 11 ستمبر1948ء کو 1 بجکر 15 منٹ پر قائد کی نبض کمزور پڑنے اور بے قاعدگی سے چلنے لگی ۔ جسم کے تمام حصوں پر ہلکا ہلکا پسینہ آنے لگا اس وقت کور امین کا ایک ٹیکہ لگایا گیا‘ ساتھ ہی مکسچر پلانے کی کوشش کی گئی مگر دوا حلق سے نیچے اتر نہ سکی تو چار پائی کے سرہانے والے حصہ کو اونچا کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے کرنل الٰہی بخش صاحب کی اس وقت کافی مدد کی مگر وہ بھی تھکی ہوئی تھیں، تب چار پائی کے نیچے اینٹوں کی جگہ کتابیں رکھی گئیں اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ کو قائد کی نبض میں ایک اور ٹیکہ لگانے کے لئے کہا گیا لیکن نبض مشکل سے مل سکی۔ نرس نے قائد کے منہ سے آکسیجن لگائی اور پھر ایک دفعہ منہ کے ذریعے مکسچر پلانے کی کوشش کی گئی مگر یہ کوشش بھی بیکار رہی۔
کورامین (طاقت کا ٹیکہ) دینے کے بعد معالج نے قائدکو مخاطب کیا ’’ہم نے یہ طاقت کا ٹیکہ لگایا ہے‘ خدا کے فضل سے جلد اثر کرے گا اور آپ اچھا محسوس کریں گے۔‘‘ میں اب نہیں‘‘ یہ آخری الفاظ تھے جو کہ آدھ گھنٹہ خاموش ہونے سے پہلے قائد کہہ سکے ‘ فزیشن ڈاکٹرریاض علی شاہ کے مطابق قائد کے آخری الفاظ ’’اللہ پاکستان‘‘ تھے‘ محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق آخری کمزور قسم کی آواز میں الفاظ یوںتھے ’’فاطمی خدا حافظ‘‘ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ اس وقت کمرے میں تین افراد ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش‘ ڈاکٹر ریاض علی شاہ‘ ڈاکٹر ایس ایم عالم موجود تھے۔ ڈاکٹروں کے علاوہ محترمہ مس فاطمہ جناح اور سٹاف نرس موجود تھیں۔
10 بجے پھرکچھ امید ہونے لگی مگر ٹھیک 10 منٹ بعد یہ امید مایوسی میں تبدیل ہو گئی اور یوں 10 بج کر 20 منٹ پر کلائی کی نبض محسوس نہ کی جاسکی۔ سٹیتھوسکوپ دل پر رکھا گیا مگر آوازنہ آئی اور قائداعظم ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئے ’’انا اللہ وانا الیہ راجعون‘‘ مس فاطمہ جناح شفیق بھائی کی ایسی کیفیت سے رنجیدہ ہو کر رہ گئیں‘ کرنل الٰہی بخش کی کتاب صفحہ 113 پر قائدکی نبض رکنے کا وقت 10 بج کر بیس منٹ ہے جبکہ خالد محمود ربانی نے اپنی کتاب قائد کے 50 دن اور ان کے ذاتی معالج‘‘ میں جو دستاویزات شائع کی تھیں ان کے مطابق قائد کی وفات کا وقت 10 بج کر 25 منٹ ہے۔
ڈاکٹر ایس عالم قائداعظم کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم اعلیٰ درجہ کے خلیق انسان تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی جب ہم ان کے پاس علاج یا ایکسریز لینے جاتے تو وہ نہایت عزت بخشتے اور دوستانہ مزاج میں گفتگو کرتے۔ وہ ڈسپلن کے بڑے قائل تھے۔ ان کی شخصیت میں بے شمار خوبیاںتھیں۔ ویسے بھی ان کی شخصیت جاذب نظر تھی اور رعب و دبدبہ تھا۔ مگر علالت کے دوران وہ نہایت متحمل مزاج رہے۔ایک صفت ان میں یہ تھی کہ اگر کوئی بات ان کوناگوار گزرتی تو اس پر کوئی دلیل دی جاتی تھی تو وہ بات دلیل سے مان لیتے تھے۔ لیڈی نرس کی خدمات کے لئے وہ کبھی تیار نہ ہوتے تھے تو اپنی بہن فاطمہ جناح پر ان کا زیادہ بھروسہ اور اعتماد تھا مگر میڈیکل علاج کے حوالے سے دلیل دی گئی تو وہ نرس متعین کرنے پر راضی ہو گئے اصل میں وہ پاکستان کے خزانہ پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے وہ کہتے تھے فاطمہ سارے کام کر لیتی ہے تو پھر نرس کیوں؟
ڈاکٹر عالم نے بتایا کہ قائد کے ایکسریز اور ہسپتال کا دیگر سارے کا سارا ریکارڈ محترمہ فاطمہ جناح محفوظ رکھنے کے لئے اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ ڈاکٹرصاحب نے اپنے حافظے میں محفوظ یادوں سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورٹیبل ایکسریز پلانٹ میرا ذاتی زیارت لے گئے۔ رات کو ایکسریز غسل خانہ میں اندھیرا کر کے ہم نے تیار کئے تھے۔ قائداعظم کے دونوں پھیپھڑے بری طرح مرض سے متاثر تھے۔ ایکسریز ہم چارپائی پر لیٹے ہوئے لیتے رہے۔ مگر پھیپھڑوں کا کوئی حصہ صحت مند نہ تھا۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ مرض قدرے اور ایڈوانس ہو چکا تھا اور علاج ناممکن ہو گیا تھا حالانکہ انجکشن سٹپرومائی سین اور دوا امریکہ سے منگوائی گئی تھی وہ بھی کار آمد نہ ہو سکی۔ آخر میں ڈاکٹر ایم ایم مستری بھی طلب کئے گئے تھے‘ امریکہ سے بلوانے کے لئے مشورے ہوئے مگر دوری کی وجہ سے کچھ نہ ہو سکا اور خود قائد بیرونی ڈاکٹر پر اعتماد بھی نہیں کرتے تھے۔
قائداعظم کو جب کوئٹہ سے کراچی کے لئے روانہ کیاگیا تو نہایت کمزور اور نیم بے ہوشی کے عالم میں تھے یہی وجہ تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح سے مشورہ کے بعد کراچی کے سفر کا فیصلہ اور سفر کو خفیہ رکھا گیا۔ڈاکٹر ایس ایس عالم نے بتایا کہ میڈیکل ٹیم نہایت تجربہ کار اور قابل ترین افراد پر مشتمل تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش نے انگلستان سے گریجویشن ‘ پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹر آف دی میڈیسن کی تھی وہ ریسرچ ورکر اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے۔
ڈاکٹر ریاض علی شاہ میوہسپتال کے شعبہ تپ دق میں پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر غلام محمد اسی ہسپتال میں تجربہ کار پتھالوجسٹ تھے اور ڈاکٹر ایس ایس عالم انگلستان کے ایکسریزکے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے ساتھ مس فاطمہ جناح خود ڈینٹل سرجن تھیں۔
پھیپھڑوں کا مرض قائداعظم کو 1940ء سے لاحق تھا مگر اس کو انہوں نے ایک طرف رکھ دیا‘ اگر قائداعظم ڈاکٹروں کی بات مان لیتے تو ڈاکٹر سینٹوریم میں بھجوادیتے اور اس طرح دشمن کو علم ہو جاتا۔ وہاں ڈاکٹر آرام، مکمل آرام تجویز کرتے اور قائد آرام کرتے تو ملک پاکستان کیسے معرض وجود میں آ جاتا۔ ڈاکٹر مستری بمبئی میں پریکٹس کرتے رہے اور بعد میں کراچی آ گئے وہ کبھی کرنل الٰہی بخش صاحب کے کلاس فیلو تھے۔ کرنل صاحب کے چنائو کے بارے میں یہ جواب انہوں نے دیا کہ اس وقت کے سب سے اعلیٰ تربیت یافتہ پروفیسر تھے اور انہوںنے قائد کا علاج بڑے خلوص اور پیار اور محبت سے کیا۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ زیارت یا کوئٹہ ریڈیڈنسی میں پہرہ نام کی چیز ہم نے نہیں دیکھی کوئی سفید کپڑوں میں ہوتو ٹھیک ہے ورنہ ہم نے ان کی گاڑی کے آگے کسی قسم کی موٹر سائیکل جیپ یا ایمبولینس نام کی کوئی چیزنہیں دیکھی تھی۔ ہم گورنر جنرل آف پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو زیارت سے کوئٹہ میں لا رہے تھے اس دوران بغیر کسی سرکاری انتظام کے لوگ خود بخود راستوںپر دونوںطرف کھڑے تھے۔جب کہ حکومت کی طرف سے کسی کو اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
بانی پاکستان کا سفرِ آخرت
Sep 11, 2015