سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں۔ ان کے تین بیٹوں میں حمید اللہ خاں سب سے چھوٹے تھے۔ وہ 9 ستمبر 1894ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ کی اور انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیجا جہاں سے انہوں نے بی اے پاس کیا۔ بھوپال واپس آنے کے بعد ان کی والدہ نے یہ کوشش کی کہ وہ اچھے سیاسی رہنما، مدبر اور با اثر شخصیت کے طور پر متحدہ ہندوستان میں اپنی جگہ بنا لیں۔ ریاست بھوپال میں سیاسی لیڈروں، رجال علم و فن اور علماء کرام کی آمدورفت رہتی تھی۔ حمید اللہ خاں نے نہ صرف ان سے استفادہ کیا بلکہ ذاتی روابط بھی پیدا کر لئے۔ جب سلطان جہاں بیگم کے دو بڑے صاحبزادوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہو گیا تو 1926ء میں وہ اپنے بیٹے پرنس حمید اللہ خاں کے حق میں دستبردار ہو گئیں۔ عنان حکومت سنبھالتے ہی نواب حمید اللہ خاں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ وہ نہ صرف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے چانسلر مقرر ہوئے بلکہ چیمبر آف پرنسز (Chamber of Princes) کے چانسلر بھی منتخب ہوئے۔ ان کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ ایک بیدار مغزوالئی ریاست تھے۔ انہوں نے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور تعلیمی و ثقافتی ترقی کے لئے بہت کام کیا۔ ان کا دور 1926ء سے شروع ہوا اور 1949ء میں ختم ہو گیا جب ریاست انڈین یونین میں ضم ہو گئی۔ 1960ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔
23 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ نے اپنے جلسہ میں قرار داد پاکستان منظور کی اور خدا کے فضل سے قائد اعظم کی قیادت میں ساڑھے سات سال سے بھی کم مدت میں پاکستان حاصل کر لیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نواب بھوپال کے کردار کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا گیا۔
نواب بھوپال کے دل میں ملت اسلامیہ کا کتنا درد تھا۔آزادی کی جدوجہد کے دوران نواب بھوپال کا قائد اعظم سے رابطہ رہا۔ 23 جولائی 1947ء کو انہوں نے قائد اعظم کو لکھا: مختلف حلقوں سے مجھے بہت سے پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ جاوا میں جو افسوس ناک صورت حال پیدا ہوئی ہے اس سلسلے میں انڈونیشی عوام کی طرف سے حکومت ہندوستان سے بات کروںگا۔ اگر کوئی فوری عمل نہ ہوا تو شاید ہالینڈ کے حکام ہماری خاموشی سے فائدہ اٹھا کر نئی جمہوریہ کو نقصان پہنچا دیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں اس معاملے میں کیا کر سکتا ہوں۔ تاہم میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بہت موزوں ہو گا اگر آپ پاکستان کی طرف سے یہ اعلان کر دیں کہ اگر ہالینڈ نے ایک مسلم قوم کی آزادی کے جدوجہد کو کچلنے کے لئے فوجی طاقت استعمال کی، تو مسلم انڈیا اسے غیر دوستانہ فعل تصور کرے گا۔ جاوا میں دوبارہ امن قائم کرنے کے لئے امریکہ اور برطانیہ کو بھی وارننگ دے دی جائے۔ بہر صورت آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس سلسلے میں کیا اقدام کرنا چاہیے۔۔۔قائد اعظم نے بعد میں اسی خط کی روشنی میں زور دار بیان جاری کر دیاتھا۔
قائداعظم جب پاکستان کے گورنر جنرل مقرر ہوئے تو چند ہفتوں تک نواب بھوپال نے انہیں مبارکباد کی چٹھی نہیں لکھی۔ پھر انہیں احساس ہوا کہ اس سے قائداعظم نے کوئی غلط تاثر نہ لیا ہو۔ یہ سوچ کر نواب بھوپال نے 18 جولائی 1947ء کو انہیں یہ چٹھی لکھی: مائی ڈیئر قائداعظم‘ آپ کے پاکستان کے گورنر جنرل مقرر ہونے پر میری طرف سے آپ کو مبارکباد کا پیغام نہ ملنے پر شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہو۔ میں یہ سطور صرف یہ بتانے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ میں نے اس موقع پر کوئی پیغام کیوں نہیں بھیجا۔ میرے لئے اور تمام مسلم دنیا کے لئے گورنر جنرل کے طور پر آپ کی تقرری کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمارے لئے، یعنی آپ کے عقیدت مندوں اور وفادار مداحوں کے لئے، آپ ایک غیر ملکی بادشاہ کے مقرر کردہ گورنر جنرل سے بہت عظیم ہیں۔ (درحقیقت، یہ گورنر جنرل غیر ملکی بادشاہ کی مرضی سے نہیں بلکہ مسلم لیگ کی سفارش پر مقرر ہوا تھا) قوم نے آپ کے لئے اپنی شکرگزاری اور تحسین کا اظہار آپ کو قائداعظم کا خطاب دے کر دیا۔ یہ تو سب کچھ تھا۔ میری رائے میں آپ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے 20 گورنر جنرلوں سے بھی بڑھ کر ہیں اسی وجہ سے میں نے آپ کو فوری طور پر نہیں لکھا۔ تاہم اگر میں غلطی کا مرتکب ہوں تو آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ مجھ سے جس طرح کا بھی چاہیں سلوک کریں۔
اللہ تعالی آپ کو طویل عمر اور عزم وہمت اور طاقت دے کہ آپ مستقبل میں ہماری رہنمائی کر سکیں۔ خدا کرے کہ پاکستان کو مضبوطی سے قائم اور منظم کرنے کے لئے اور اس کے عوام میں اتحاد، طاقت، خوش حالی امن اور دلجمعی کے لئے آپ تادیر حیات رہیں۔
میری ذاتی خدمات، بغیر کسی تحفظ کے، پہلے کی طرح آپ کے اختیار میں ہیں۔ آپ کے تحت کسی حیثیت میں بھی کام کرنے کو میں اپنے لئے باعث عزت سمجھوں گا۔ میں آپ سے اور اس کاز سے جس کے آپ نمائندہ ہیں وفاداری اور عقیدت میں کبھی متزلزل نہیں ہوں گا۔
خدا آپ کو خوش رکھے۔ عقیدت کے ساتھ ۔
آپ کا مخلص
حمیداللہ
قیام پاکستان سے تقریباً پانچ ہفتے پہلے حکومت پاکستان کی طرف سے این اے فاروقی نے نواب بھوپال کے پرسنل سیکرٹری کو 6 جولائی 1947 کو یہ خط لکھا: جیسا کہ آپ آگاہ ہوں گے، حکومت پاکستان نے عارضی طور پر کراچی کو دارالخلافہ چن لیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ صورت 5 سے 10 سال تک رہے گی۔ حکومت پاکستان کے عزت مآب وزراء کے لئے عمدہ قیام گاہوں کی فوری ضرورت ہے۔ اس لئے میں آپ سے استدعا کروں گا کہ یہ خط ہز ہائی نس نواب بھوپال کی خدمت میں پیش کریں ہماری اس درخواست کے ساتھ کہ وہ کلفٹن میں اپنا بنگلہ اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔
اس پر نواب بھوپال نے 19 جولائی 1947 کو قائداعظم کو لکھا:میں نے حال ہی میں کراچی میں دو مکان خریدے ہیں۔ ایک ان دفاتر کے لئے جو مجھے آپ کی فائنل ہدایات آنے کے بعد وہاں کھولنے ہوں گے اور دوسرا میں اپنے ذاتی استعمال کے لئے سازوسامان سے آراستہ کرکے رکھنا چاہتا ہوں۔ کراچی میں مجھے شاید اکثر آنا پڑے اور پاکستان میں میرے پاس ایسی جگہ ہونا چاہیے کہ اگر یہاں حالات زیادہ بگڑ جائیں تو ہماری خواتین وہاں آ کر رہ سکیں۔ اس لئے میں مسٹر فاروقی کے خط (نقل منسلک ہے) کا فوری جواب نہیں دے رہا۔ میں ان کو صرف اسی وقت جواب دوں گا کہ جب مجھے آپ کے احکام وصول ہو جائیں گے۔
مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے حکم کے مطابق ایک یا دونوں مکان بخوشی پاکستان کے حوالے کر دوں گا۔
14 اگست 1947 کو نواب پھول نے قائداعظم کو لکھا: مجھے امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ آپ کسی اور وجہ سے نہیں تو اسلام کی خاطر اور پاکستان کی خاطر جسے ماہرانہ اور چوکس نرسنگ کی ضرورت ہے اتنا کام نہ کریں جو آپ کی صحت پر اثرانداز ہو۔ یہ انتہائی ضروری اور اہم ہے کہ آئندہ بہت سے برسوں تک آپ مضبوط اور صحت مند رہتے ہوئے ہمارے درمیان رہیں۔
قائداعظم کے اے ڈی سی، میاں عطار ربانی، لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل ہائوس میں میرے سات مہینے کے قیام میں صرف تین اہم ترین شخصیتوں کو گورنر جنرل ہائوس میں مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا: جارج ششم کے بھائی ڈیوک آف گلوسٹر، ان کی اہلیہ اور نواب بھوپال سرحمیداللہ خاں، نواب بھوپال قائداعظم کے ذاتی دوست تھے اور قائداعظم کا بے حد احترام کرتے تھے۔وہ لندن جاتے ہوئے دو دنوں کے لئے قائداعظم کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے گورنر جنرل ہائوس میں ٹھہرے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے اور گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ قائداعظم اپنا سگار پیتے رہے اور نواب بھوپال اپنا چاندی کے دستے والا حقہ۔ ربانی لکھتے ہیں کہ میں نے قائداعظم کو اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا جتنا ان دنوں ہم نے دیکھا کہ نواب بھوپال کو قائداعظم کی عظمت کا احساس تھا اور وہ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ ہر دور میں اس بات کے لئے کوشش کرتے رہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کریں اور وہ پاکستان کے حصول کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ ملت اسلامیہ کے لئے نواب بھوپال کے دل میں جو درد تھا اور اس کی سربلندی کے لئے وہ جس جذبے سے سرشار تھے، اس کی بنا پر قائداعظم بھی ان کے قدر دان تھے۔