قائداعظم کا پاکستان

جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ان کے سنہری اقوال کو نظر انداز کر دیتی ہیں ان کے نقش قدم پر نہیں چلتی تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی شاید یہی وجہ ہے کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، ہمارے حکمرانوں نے اپنے محسنوں کو یکسر نظر انداز کر دیاان کے نقش قدم پر نہ چل سکے ان کے اقوال کو عملی جا مہ پہنانے کی کوشش تک نہ کی۔آج ہمیںبانی پاکستان قائداعظم جیسے نڈر اور باہمت لیڈر کی ضرورت ہے جوپیارے وطن پاکستان کوترقی کی راہ پر گامزن کرسکے، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح جیسی شخصیت صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔آپ کا اعلیٰ کردار اور آپ کے اوصاف صدی کے لوگوں کے لئے ایک مثال ہے۔ برصغیر کے مسلمان بالخصوص اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں قائداعظم جیسی عظیم ہستی میسر آئی۔ ہمارے لئے انتہائی فخر کی بات ہے کہ بابائے قوم کی شخصیت اور آپ کے کردار پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔آپ بہت سنجیدہ انسان تھے بہت کم ہنستے یا مسکراتے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سیاسی میدان میں آپ کا پالا ایک طرف طاقتور حکمران انگریز اور دوسری طرف انتہائی مکار اور منافق ہندو کے ساتھ تھا۔آپ بیس بیس، اکیس اکیس گھنٹے اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔ کھانا پینا اور سونا آپ کی زندگی میں بہت کم رہ گیا تھا ہر لمحہ آپ اس فکر میں رہتے کہ مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لانا ہے لہٰذا یہی وہ وجہ بھی تھی کہ اس فکر انگیزی کے باعث مزاج یا فضولیات آپ کی زندگی سے خارج ہو چکی تھیں۔آپ فرماتے کہ آپ ہی قوم کا اصل سرمایہ اور اثاثہ ہیں، انہیں تعلیم و تربیت کی خاص ترغیب دیتے۔ ایک بار چند لڑکے زمین پر بیٹھے گولیاں(کینچے)کھیل رہے تھے۔ قائد اعظم بھی ان دنوں بالکل نوجوان تھے۔لڑکوں نے انہیں بھی کینچے کھیلنے کی دعوت دی توآپ نے فرمایا یہ ایک گندا کھیل ہے اس سے ہاتھ اور کپڑے میلے ہو جاتے ہیں اگر کھیل ہی کھیلنا ہے تو آ¶ کرکٹ کھیلتے ہیں جو ایک صاف ستھرا کھیل ہے۔اس سے سمجھ بوجھ بھی آتی ہے۔آگے بڑھنے کا حوصلہ اور اپنے مدِمقابل پر فتح حاصل کرنے کی جستجو بھی پیدا ہوتی ہے۔
ہمارے بزرگ جو قائداعظم کے ساتھ رہے، کہتے ہیں کہ ہم نے قائداعظم کو ہمیشہ سنجیدہ اور فکر مند دیکھا مگر جب وہ نوجوانوں اور بچوں کے درمیان ہوتے تو ہم نے انہیں بالکل نوجوان اورایک بچے کی طرح پایا۔آپ نوجوانوں کو مخاطب کر کے فرماتے کہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرو، خوب پیسہ کما¶ اور پھر سیاست میں آ¶۔آپ کی سیاست کرپشن، بدعنوانی، جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ سے ہمیشہ پاک رہی جس طرح آپ کا ظاہر نہایت صاف اور شفاف تھا اس طرح آپ کا باطن بھی نہایت صاف اور شفاف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی سیاست بھی ان تمام تر غلاظتوں سے پاک اور صاف تھی ہر اعتبار سے یہ آپ کی شفافیت ہی تھی کہ انہوں نے ہمیں بغیر کسی جنگ کے ایک الگ وطن حاصل کر کے دیا۔سیاست ایک خدمت کا نام ہے جو حقوق العباد کے زمرے میں آتی ہے۔ سیاستدان جس قدر صاف اور شفاف کردار کے مالک ہوں گے ملک وملت اسی قدر باعث عزت و تکریم بھی ہوگی اور ترقی بھی کرے گی۔ ہمیں اپنے نمائندے ایسے منتخب کرنے چاہئیں جو اسلامی احکامات پر پورا اترنے والے اور بابائے قوم کے فرمودات کو عملی جامہ پہنانے کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہوں تاکہ یہ ملک ان مقاصد کو حاصل کر سکے جن مقاصد کے تحت یہ عظیم اسلامی سلطنت حاصل کی گئی تھی۔ لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا قوم کو صحیح لیڈر نہ مل سکا۔ ہم سے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں یہ کہنا کہ آج کے بچے سیاست دانوں سے بے خبر ہیں،درست نہیں جب سے الیکٹرانک میڈیا آیا ہے زیادہ تر بچے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع ہو گئے ہیں۔ بچے سیاست میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں؟ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں۔ایک سیاست دان کا بیٹا جو کہ میٹرک کا طالب علم تھا نے اپنے باپ سے موٹرسائیکل لینے کی ضد کی بڑی سوچ بچار کے بعد باپ نے بیٹے سے وعدہ کیا اگر تم میٹرک میں اچھے نمبر یعنی A+ گریڈ حاصل کرو گے تو میں آپ کو موٹرسائیکل لے دوں گا۔ بچے نے خوب محنت کرنا شروع کردی۔میٹرک کے امتحانات شروع ہوئے بچے نے دن رات محنت کر کے آخر کار A+ گریڈ حاصل کر لیا۔ اصولاً تو یہ چاہئے تھا کہ باپ بیٹے کو اس کے کہنے سے پہلے ہی موٹرسائیکل لے دیتا۔ لیکن ایسا نہ کیا گیا بچے نے بار بار اصرار کیا کہ اسے موٹرسائیکل لے کر دی جائے پھر ایک دن باپ نے کہہ ہی دیا وہ تو میرا سیاسی بیان تھا، بچہ بات کوسمجھ توگیا لیکن حیران کن انداز میںباپ سے سوال کیایہ سیاسی بیان کیا ہوتا ہے؟ باپ نے ٹال مٹول کا سہارالیتے ہوئے کہاابھی تم چھوٹے ہو بڑے ہو کر سمجھ جاو¿ گے باپ چونکہ سیاست میں تھا اس نے مزیدکہا کہ تم پڑھ لکھ جا¶ تو میں تمہیں موٹرسائیکل تو کیا زیرو میٹر گاڑی لے دوںگابچے کے ذہن فوراً یہ خیال وعدہ کر کے موٹر سائیکل نہیں دے رہے کل کو گاڑی کہاں سے دیں گے۔ اس کے علاوہ بچے کے ذہن نے کئی سوالات کوجنم دیا ہو گااس جملے سے بچے کے ذہن نے کیا تا ثر لیاہو گا،اس سے آپ ہمارے ہاںکی سیاست کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن