جوں جوں میں بابائے قوم قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی قوم کی بے حسی پر افسوس ہوتا ہے۔ جو قوم اپنے محسن کےلئے ایک ایمبولینس کا انتظام نہ کر سکی اس قوم کو ایلان کردی کی موت کا بھی کوئی افسوس نہیں ہو گا ۔ تین سالہ ایلان کردی کی آخری پکار نے ہر ذی روح کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک ارب 57 کروڑ مسلمانوں، 57 مسلمان ممالک، ایک کروڑ 9 لاکھ مسلمان فوجیوں، 40 امیر ترین عرب باشندوں کی 146 ارب ڈالر کی دولت مسلم دنیا کی 77 کھرب 40 ارب ڈالر کی معیشت، اسلامی کانفرنس تنظیم، عرب لیگ، رابطہ عالمی اسلامی سمیت کسی کا ضمیر جاگا نہ ہی فرعون صفت ظالم اور کئی ہزار شامی مسلمانوں کے قاتل بشار الاسد کے چہرے پر ندامت اور شرمندگی کی کوئی لہر نہیں آئی۔ اور نہ ہی قائد اعظم کی نام لیوا مسلم لیگ نے عالمی سطح پر شامیوں کےلئے کوئی کمپین چلائی ، شام میں فسادات کی تاریخ بہت ستم ظریف ہے اور جابر حکمرانوں کی بے حسی پر مبنی ہے۔ نائن الیون کی کوکھ سے جنم لینے والے انقلاب عرب بہار نے جب تیونس کا رخ کیا تو اس نے سبھی مسلمان حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا۔ بعض تو پہلے سے بھی زیادہ خشوع و خضوع کےساتھ امریکہ کی دلداری و تابعداری کو اپنی نجات اور ترقی درجات کا ذریعہ سمجھنے لگے اور وہ فوراً واشنگٹن کے در پر سجدہ ریز ہو گئے اور بدقسمتی سے بعض نے طاقت کے زور پر اپنی رعایا کو ہمنوا بنانے اور ان کی سرگرمیوں کو کچلنے کا انتظام کیا۔ عرب بہار جب شام تک پہنچی تو چند شامی بچوں نے بشار کی حکومت کےخلاف دیواروں پر چند کلمات لکھ ڈالے۔ شامی پولیس نے انکو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا تو وہاں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بشار نے ان ہنگاموں کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ کیا تو شورش اور خانہ جنگی دیکھ کر القاعدہ کے النصرہ فرنٹ اور داعش نے شام میں پنجے گاڑ دیئے۔ بشار کی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنے واحد حلیف ملک کی مدد شروع کر دی۔ دوسری طرف سعودی عرب، قطر اور عرب امارات نے شامی باغیوں کی مدد شروع کر دی۔ سعودی عرب نے امریکہ کو اس جنگ میں کودنے کیلئے بھرپور شہہ دی، واشنگٹن کے انکار پر سعودی عرب شدید ناراض بھی ہوا اور اس نے اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کی وہ نشست بھی سنبھالنے سے انکار کر دیا تھا درحقیقت اس وقت شام میں فرنٹ پر بشار الاسد ہے لیکن اسکے پیچھے کھڑے ہو کر ایران یہ جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں بے تحاشہ لوگ ملک سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وائس آف رشیا کی رپورٹ کے مطابق 40 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین میں سے 20 لاکھ کے قریب ترکی میں پناہ گزین ہیں، 10 لاکھ لبنان اور 6 لاکھ اردن میں ہیں جبکہ اڑھائی لاکھ جنگ زدہ عراق میں پناہ لئے ہوئے ہیں، سوا لاکھ مصر جبکہ پچیس سے تیس ہزار شمالی افریقی ممالک میں ہیں جہاں یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب رہے ہیں۔ انہی میں ایلان اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ تھا۔ کشتی بھنور میں پھنسی اور انسانی سمگلر نے اپنی جان بچانے کیلئے پانی میں چھلانگ لگائی تو ایلان نے اپنے والد سے کہا ”ڈیڈی پلیز مرنے نہ دینا“۔ صاحب اولاد ذرا اس جملے پر غور کریں تو دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ ننھے فرشتے کی آخری پکار نے لوگوں کو رُلا دیا ہے۔ ایلان کی لاش کو ساحل پر دیکھ کر یوں لگا جیسے کوئی گڑیا پڑی ہے لیکن کسے علم تھا کہ سمندر کا پانی بھی اس خوبصورت لاش کو سمونے کی ہمت نہ کر سکے گا، سمندری جانوروں کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ پوری دنیا رو پڑی لیکن عرب ممالک کے پتھر دل پسیج نہ سکے۔ سعودی عرب، قطر اور عرب امارات میں مہاجرین کی تعداد صفر جبکہ جرمنی نے 8 لاکھ افراد کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ جرمنی کے عوام نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم شامی کیمپوں میں جا کر وہاں سے بسنے والے مہاجر بچوں کو ایلان کی تصویر دکھانے کےساتھ ساتھ یہ ضرور بتائیں گے کہ شامی پناہ گزین جب اپنے ملک سے نکلے تو یورپ نے انہیں پناہ دی حالانکہ مکہ اور مسلم ممالک انکے قریب تر تھے۔ این جی اوز انکے ذہنوں میں عرب ممالک کی نفرت بھر دیں گی۔ لہذا عرب ممالک فرضی، قیاسی اور تخیلاتی ہیولوں سے کھیلنے اور نیا بہانہ تخلیق کرنےکی بجائے شامیوں کیلئے اپنے ملکوں کے دروازے کھول دے۔ اس وقت شامی سخت مایوسی کا شکار ہیں اور انکی ہمہ گیر مایوسی نے پوری امت مسلمہ کے دلوں میں گھر کر لیا ہے اور ”ڈیڈی پلیز مجھے ڈوبنے نہ دینا“ کی صدا نے انہیں نڈھال کر دیا ہے۔ لیکن پاکستانیوں پرقائد کی موت نے بھی کوئی اثر نہیں چھوڑا۔اگر آج قائد ہوتے تو ہمارے حکمرانوں کے کارناموں کو دیکھ کر وہ بھی شرمندہ ہوتے ۔ آخر میں ذکر 7 ستمبر یوم ختم نبوت کے سلسلہ میں مجلس احرار اسلام مسلم ٹاﺅن کے دفتر میں ہونے والی کانفرنس کا مجلس احرار کے کارکنان اور ذمہ داران کے بارے کہا جاتا ہے کہ احرار کی رگوں میں خون کی بجائے آگ دوڑتی ہے، جن کے وجود غیرت ایمان کے انگارورں سے بنے اور حریت فکر کے سانچوں میں ڈھلے ہیں اور حقیقت میں حضرت پیرجی سید عطاءالمھیمن کی شخصیت اسی سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔ مولانا زاہد الراشدی اور مولانا عبدالرﺅف فاروقی نے قادیانیوں کی سرگرمیوں پر خوب روشنی ڈالی۔ قاری علیم الدین شاکر نے گرجتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارے سپیکر اتروائے تھے اللہ نے ان کا سپیکر اتار دیا۔ جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر نے عدلیہ میں قادیانیوں کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ عبدالطیف خالد چیمہ صاحب ہر سال اپنی نگرانی میں یہ پروگرام کراتے ہیں۔ قاری قاسم اور تنویر الحسن احرار بھی ایکٹو نظر آئے۔ آخر میں مولانا مفتی محمد حسن صاحب نے اختتامی کلمات کے ساتھ دعا کرائی۔ 5 ستمبر کو ایوان اقبال میں مولانا خادم حسین رضوی نے بھی ختم نبوت پروگرام کروایا جس میں برادرم ملک کاشف اویس باوا اور مہر فیصل قادری، سجاد شوکت ،عرفان ظل شاہ اور ملک عباس نے جس طرح پروگرام کی تشہیر کی وہ قادیانیت کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔