سعودی عرب میں آج حج کا بنیادی رکن "وقوف عرفات" میدان عرفات میں ادا کیا جارہا ہے۔ پچھلے دس سالوں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر سے ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سال بھی20 لاکھ سے زائد عازمین میدان عرفات میں جمع ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں عازمین حج کا انتظام و انصرام کرنا یقینی اعتبار سے جان جوکھوں کا کام ہے۔ عرفات کا میدان مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں جبل رحمت کے دامن میں واقع ہے۔ یہ میدان مکہ سے تقریباً 16کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ عرفات کا میدان سارا سال غیر آباد رہتا ہے لیکن وقوف عرفات کے دن 9ذی الحجہ کو یہ میدان ایک عظیم الشان شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔ عرفات کا میدان9 ذی الحجہ کی صبح آباد ہوتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی اس کی رونق ختم ہوجاتی ہے۔ حجاج کرام مغرب کے وقت میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہو جاتے ہیںجہاں وہ مغرب اورعشاءکی نمازیں ملا کر پڑھتے ہیں۔ مزدلفہ میں ایک رات قیام کے بعد حجاج کرام دوبارہ وادی منیٰ کے خیموںمیں پہنچ جاتے ہیں اور حج کے دوسرے مناسک ادا کرتے ہیں۔
وقوف عرفات کو حج کا مناسک اکبر (سب سے بڑا عمل) قرار دیا گیا ہے اگر عازمین حج باقی تمام مناسک ادا کر دیں لیکن اگروہ مقررہ وقت کے دوران کسی بھی وجہ سے میدان عرفات کی حدود میں نہ پہنچ سکیں تو ان کا حج ادا نہیں ہوتا۔عرفہ کا دن مغفرت اور گناہوں سے معافی کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا دن ہے۔ میدان عرفات میں حاضرین ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے کانپتے ہاتھوں اور لرزتے ہونٹوں سے خدائے بزرگ و برتر سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اس میدان میں صرف ایک ہی لگن ہے، ایک ہی جذبہ ہے ایک ہی ولولہ ہے اور وہ ہے صرف اور صرف تکمیل حج۔یہاں شرطِ اول صرف قیام ہے۔ اتنی بڑی بھیڑ میں بھی آپ اکیلے اور تنہا کھڑے ہیں۔آپ اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔آپ اللہ سے جو چاہیں مانگیں، کوئی پابندی نہیں۔اس دن قدرت نے آپ کو مانگنے کا کھلا وقت دیا ہے۔عرفات میں قیام کے دوران زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ حجة الوداع کے موقعہ پر میدان عرفات ہی میںسرکار دو عالم ﷺ نے اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر وہ خطبہ دیا جس کے آگے تمام دنیا کے منشور بے معنی نظر آتے ہیں۔میدان عرفات میں اس جگہ ایک سفید پتھر( بطور نشانی )لگا ہے۔اس فصیح و بلیغ خطبے کا ایک ایک جملہ قیامت تک نسل انسانی کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
جبل عرفات بھی میدان عرفات میں ہے۔ اس پہاڑی کو" جبل رحمت" یعنی رحمت والی پہاڑی بھی کہا جاتا ہے۔ جبل رحمت تقریباً ستر میٹر بلند ہے یہ پہاڑی گرینائٹ کے پتھروں سے بنی ہے۔ جبل رحمت ہی وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے حج کی ادائیگی کے بعد آخری خطبہ دیا۔
تحقیقی کتب میں اس پہاڑی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواعلیہ السلام کو جب جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجا گیا تو وہ ایک دوسرے سے دو سو سال تک جدا رہے۔ وہ دنیا میں پہلی بار جبل رحمت پر ہی ایک دوسرے کو ملے۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اسی پہاڑی پر دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔ اسی نسبت سے اس پہاڑی کو جبل رحمت بھی کہا جاتا ہے۔ جج کے موقع پر عازمین حج میدان عرفات میں قیام کے دوران تسلسل سے توبہ استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔میدان عرفات میں عازمین حج جب دو سفید کپڑوں کے ٹکڑوں میں(احرام) گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں تو بعض مفسرین اس منظر کو میدان حشر میں پیش آنے والے منظر سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جب لوگ میدان حشر میں اعمال کا حساب دے رہے ہوں گے تو منظر کچھ اسی طرح کا ہو گا۔
میدان عرفات میں جمع ہونے والے انسانوں کا جم غفیر دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔اتنی بڑی تعداد میں مقررہ وقت میں لوگوں کو یہاں پہنچانے کے لیے سعودی حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ہزارہا بسیں ، گاڑیاں اور لاکھوں پیدل لوگ جب منیٰ سے عرفات اور پھر اسی شام کو عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو انسانوں کا سمندر متحرک نظر آتا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں عازمین حج کی ٹرانسپورٹ اور خوراک کا انتظام ایک بڑا امتحان ہے۔ سعودی حکومت نے ٹرانسپورٹ کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے نومبر2010 خصوصی میٹرو سروس کا اغاز کیا ہے۔ 18کلو میٹر سے زائد طویل میٹرو ٹرین پہاڑی سرنگوں اور دشوار گزار راستے سے گزرتی ہوئی عازمین کو مکہ ، منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ پہنچاتی ہے ۔میٹرو کے ذریعے ایک گھنٹے میں 72ہزار سے زائد افراد سفر کر سکتے ہیں۔ اس میٹرو ٹرین کو جدہ ائرپورٹ سے مکہ میں حرم تک توسیع دینے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے ۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت مکہ مکرمہ میں سرنگوں کی مجموعی تعداد 62 ہے۔ ان میں 54 سرنگیں گاڑیوں کے لیے اور 8 پیدل چلنے والوں کے لیے ہیں۔ سرنگوں کے اس نیٹ ورک نے مکہ کی گھاٹیوں کے درمیان ربط قائم کردیا ہے۔حج کے تمام مناسک کی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہے۔ قیام منیٰ ، قیام مزدلفہ ، رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا)، بال کٹوانا، جانور کی قربانی کرنا، طواف زیارة کرنا، سبھی حج کے مناسک ہیں۔ لیکن یہ سب مناسک احسن طور پر ادا کرنے کے باوجود بھی اگر وقوف عرفات کے لیے نہ پہنچ سکیں تو حج نہ ہو گا۔سعودی وزارت صحت کے مطابق اس سال حج کے دوران کوئی وبا پھوٹنے کا اندیشہ نہیں، عازمین حج کو علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے 25 اسپتالوں میں2600 افراد پر مشتمل طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ کسی حادثاتی صورتحال سے بچنے کے لئے ہر حاجی کوالیکٹرانک بریسلٹ بھی دیا گیا ہے۔اس بریسلٹ کی مدد سے کسی بھی حاجی کی شناخت، اس کے متعلق ضروری ڈیٹا کو محفوظ کرنے، پاسپورٹ اور ویزہ سے متعلق معلومات جمع کرنے میں مدد ملے گی۔ اس اسمارٹ سہولت کے باعث اس بات کا پتا چلایا جاسکے گا کہ کون سا حاجی مکہ مکرمہ میں کس مقام پر موجود ہے۔