5 دسمبر 2013ءکو جنوبی افریقہ کے بابائے قوم نیلسن منڈیلا کا انتقال ہُوا تو مَیں نے مختلف نیوز چینلوں پر اُن کے گھر کے باہر اُن کے چاہنے والوں کو رقص کرتے اور دُعائیہ گیت گاتے دیکھا اور سُنا 7 دسمبر کو ” نوائے وقت “ میں میرے کالم کا عنوان تھا ” مَیں نے موت کو گِیت بنا دِیا“ مَیں نے یہ عنوان ایران کے نامور شاعر احمد شاملو کی ایک نظم سے لِیا تھا ۔ نظم کا ایک بند تھا ....
” سمندر کے دِل سے زیادہ بے قرار
مَیں نے لہو کو گِیت بنا دِیا
زندگی سے زیادہ پُر شور ہوگئی
مَیں نے موت کو گِیت بنا دِیا“
ہمارے یہاں اپنے قومی لیڈر کی وفات پر اِس طرح کا رواج نہیں ہے لیکن اُس کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات ہمارے لئے تجدید عہد کا دِن ہوتا ہے ۔ آج 11 ستمبر ہے حضرت قائدِاعظمؒ کا یومِ وفات ہم قائداعظمؒ کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات باقاعدگی سے مناتے ہیں انہیں یاد کرتے ہیں اور اُن کے افکار و نظریات کو بھی ، اگرچہ ہم نے قائداعظمؒ کا آدھا پاکستان گنوا دِیا ہے اور کشمیر جِسے قائداعظمؒ نے پاکستان کی شہ رگ قرار دِیا تھا اُس کا ایک بڑا حِصہ ہمارے دشمن بھارت کے قبضے میں ہے۔
امریکہ کے ہیرو ابراہیم لنکن انقلابِ روس کے قائد ولادیمیر لینن جمہوریہ تُرکیہ کے بانی اتا ترک غازی مصطفےٰ کمال پاشا اور عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماﺅزے تنگ کی طرح محکوم ہندوستان کے مسلمانوں کے ووٹ کی طاقت سے اُن کے لئے ایک الگ وطن حاصل کرنے والے قائداعظمؒ بھی قائدِ اِنقلاب تھے لیکن موت نے انہیں ابراہیم لنکن ، ولادیمیر لینن، اتا تُرک اور ماﺅزے تنگ کی طرح اپنا انقلاب مکمل کرنے کی مہلت نہیں دی ۔ غزنی کا بادشاہ شہاب اُلدّین غوری 1191ءمیں دہلی کے آخری ہندو راجا پرتھوی راج چوہان سے شکست کھا کر واپس چلا گیا تھا لیکن غوری اور اُس کے جرنیلوں نے اپنے لئے رات کی نیند اور دِن کا چین حرام کرلِیا تھا۔ دو سال بعد غوری نے دہلی پر پھر حملہ کِیا ۔ پرتھوی راج چوہان نے اپنی شکست کا بدلہ لِیا اور اپنے ایک غلام ( جرنیل) قطب اُلدّین ایبک کو دہلی کا بادشاہ بنا کر واپس چلا گیا۔
قطب اُلدّین ایبک ہندوستان کا بادشاہ ( سُلطان) کہلایا شہاب اُلدّین غوری اور قطب اُلدّین ایبک کا مقصد ہندوستان میں شرعی نظام نافذ کرنا نہیں تھا اور نہ ہی اُن کا دور ”جمہوریت کا دَور“ تھا لیکن علاّمہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کے لئے قائداعظمؒ نے حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کے قیام کے لئے پاکستان بنایا تھا اور ہر مذہب کے انسانوں کو یقین دلایا تھا کہ انہیں بھی مسلمانوں کی طرح مساوی مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حقوق حاصل ہوں گے“۔ ہندوستان کی مذہبی جماعتوں کے قائدین خاص طور پر کانگریسی مولویوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قائداعظمؒ نے واضح کردِیا تھا کہ ” پاکستان میں "Theocracy" ( مولویوں کی حکومت) نہیں ہوگی“۔ اِس سے پہلے علاّمہ اقبالؒ نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنا یہ فلسفہ ذہن نشین کرادِیا تھا کہ ....
” دِین مُلاّ فی سبیل اللہ فساد!“
علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے جاری کرنے والے مولویوں کے سیاسی وُرثاءپاکستان میں سیاست کرتے ہیں۔ حکمران فوجی آمر ہو یا جمہوری لیڈر، اُس کے اتحادی بن جاتے ہیں جب بھی عام انتخابات ہُوئے مسلمانوں نے ”اسلام پسند “ لیڈروں کو بھاری مینڈیٹ نہیں دِیا۔ طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کو جمہوری پاکستان میں اپنی مرضی کا ” شرعی نظام اور خلافت“ قائم کرنے کا سبق کِس کِس نے پڑھایا ؟۔ اگست 2005ء میں داراُلعلوم دیو بند کے مہتمم مولوی مرغب اُلحسن نے ( جو اب آنجہانی ہو چکا ہے ) ممبئی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا ۔ ” محمد علی جناحؒ“ نماز نہیں پڑھتے تھے ۔ شراب پِیتے تھے ۔ مَیں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا“ جنابِ مجید نظامی نے ” نوائے وقت “ اور "The Nation" میں اور مَیں نے اپنے روزنامہ ” سیاست“ لاہور میں مولوی مرغوب اُلحسن اور اُس کے سرپرستوں کی خوب ٹُھکائی کی تھی لیکن مسلم لیگ کے سارے دھڑے خاموش رہے ۔
”نظریہ پاکستان ٹرسٹ “ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید کی تحقیق کے مطابق 25 دسمبر 1876ءکو ہجری مہینے کی تاریخ 8 ذوالحج تھی۔ آج 11 ستمبر 2016ءکو بھی ہجری مہینے کی تاریخ 8 ذوالحج ہے۔ گویا آج قائداعظمؒ کا یومِ پیدائش بھی ہے اور یومِ وفات بھی قائداعظمؒ سے عقیدت اور محبت کر نے والے اصحاب کیا کیا کمال دِکھاتے ہیں؟۔ اِس لحاظ سے قائداعظمؒ کے حقیقی نظریہ¿ پاکستان کی ترویج و اشاعت کے لئے کارکنانِ تحریک پاکستان اور اُن کے وُرثاءکی ذمہ داریاں دو گُنا ہوگئی ہیں ۔
علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات کے مطابق حقیقی نظریہ¿ پاکستان کی ترویج و اشاعت کے لئے ڈاکٹر مجید نظامی کے قائم کردہ دو نظریاتی اداروں ” نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ اور ” کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ“ جو کام کِیا وہ مختلف ادوار کی کسی بھی برسر اقتدار مسلم لیگ نے نہیں کِیا ۔ مصاحبین نے مسلم لیگ کے ہر صدر اور وزیراعظم سے یہ تو کہا کہ ”جنابِ والا!۔ آپ قائداعظمؒ کی کرسی پر تشریف فرما ہیں “ لیکن کسی بھی مصاحب نے ” قائداعظم ؒثانی / ثالث“ کو یہ نہیں بتایا کہ ۔ ” قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قیامِ پاکستان میں اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ جدوجہد کی تھی لیکن گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے قائداعظمؒ نے انہیں حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا“ کیا قائداعظمؒ کے یومِ وفات پر حکمران سیاسی جماعت اور دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین ( جو قائداعظمؒ کی زبانی کلامی بہت زیادہ عِزت کرتے ہیں ) اپنی اداﺅں پر غور کرنے کے لئے وقت نکال سکیں گے؟۔
آج 11 ستمبر کو مجھے 1857ءکی جنگِ آزادی کے ہیرو ( اودھ کے مسلمان راجپوت ) جنرل بخت خان بھی بہت یاد آ رہے ہیں ۔ 11 مئی 1857ءکو میرٹھ سے جنگِ آزادی کا آغاز ہُوا تھا31 مئی کو جنرل بخت خان نے اپنی 10 ہزار فوج کی کمان کرتے ہُوئے انگریزی فوج کو دہلی میں شکست دے دی تھی لیکن مُغل شہزادوں اور درباریوں کی سازشوں اور مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کمزور طبیعت کے باعث ناراض ہو کر جنرل بخت خان 11 ستمبر 1857ءکو رُوپوش ہوگئے تھے اگر جنرل بخت خان کو انگریزی فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے "Free Hand" مِل جاتا تو انگریزوں کو ہندوستان سے بھاگنا پڑتا قائداعظمؒ اپنی زندگی میں "Living Legend" تھے اور اِنتقال کے بعد بھی زندہ و جاوید علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ....
” مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ، ہم سے جُدا ہوتے نہیں“
اگر قائداعظم ؒ کو حقیقی اسلامی ، جمہوری اور فلاحی مملکت کے قیام کے خواب کی تعبیر اور اپنے اِنقلاب کی تکمیل کے لئے مہلت مِل جاتی تو کیا اُن کی قیادت میں قوم کی تقدیر نہ بدل جاتی؟ سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے ادُھورے پاکستان / انقلاب کی تکمیل کون کرے گا ؟ کیا حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمانوں سے اُترنے کا انتظار کِیا جائے ؟ یا ہم علاّمہ اقبالؒ کے اِس شعر کو قوالی کی شکل میں ڈھال کر سُنتے رہیں کہ ....
” ہزاروں سال نرگس ، اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے ، چمن میں دیدہ¿ وَر پیدا“