آزادی دلانے والا جواں مرد

میرے بابا الحاج محمد امین بٹ اقبال کا یہ شعر گُنگُنایا کرتے تھے
می رسد مردے کہ زنجیرِ غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزنِ دیوار زندانِ شما
ایک دن میں نے ان سے پُوچھا۔ بابا اس شعر کا کیا مطلب ہے۔ بابا نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا اقبال کا یہ شعر جناح کیلئے ہے‘ ان کے کئی اشعار ایسے ہیں جو قائداعظم کیلئے موزوں ہیں مگر جو بات اس شعر میں ہے وہ کسی اور شعر میں نہیں ملتی۔ اس شعر کا مطلب یہ ہے میں نے تمہارے قید خانے کی دیوار کے شگاف سے دیکھ لیا ہے کہ وہ جواں مرد آن پہنچا ہے جو غلاموں کو آزاد کرائے گا۔ اقبال نے کیا سچ کہا ہمیں آزادی دلانے والا اور کوئی نہیں مُحمد علی جناح ہیں۔میں نے اپنے 14 اگست والے کالم میں اپنے بابا الحاج محمد امین بٹ اور قائداعظم مُحمد علی جناح کی والٹن کیمپ کی واحد ملاقات کا ذکر کیا تھا‘ یقین مانیں یہ مُلاقات ان کی زندگی کا حاصل تھی۔ وہ دل و جان سے پاکستان اور بانی پاکستان کے شیدا و فدا تھے۔ اس دن انہوں نے مُجھے کہا قائداعظم صحیح معنوں میں تاریخ ساز شخصیت تھے‘ وہ دِلوں میں اُتر جانے والی شخصیت تھے‘ روشن بیضوی چہرہ‘ چمک دار آنکھیں اور گُونج دار آواز‘ کم گو اور کم آمیز‘ خاموشی میں باوقار اور گُفتگو میں بارُعب ‘ اِیستادگی اتنے سیدھے کہ اپنی بُلند قامت سے بُلند تر اور پُختہ عُمر سے کمتر لگتے تھے۔ کوئی شخص ان کی مقناطسیت سے بچ نہ سکا اور ہر شخص ان کی برتری کا قائل ہوگیا‘ وہ معمار پاکستان تھے‘ مُورخ اور معمار کا یہ ہے کہ مُورخ تاریخ دان ہوتا ہے اور معمار تاریخ ساز .... میرے بابا کہا کرتے تھے ہم نے اقبال کے شعر اور جناح کی شخصیت سے مُحبت کی اور د ونوں طرح سے فائدے میں رہے۔ مُسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباً ساڑھے سات سو سال حکومت کی۔ سو سال سلطنت عظیم کے ٹوٹنے میں لگے۔ انگریزوں نے 90 برس بلاشرکت غیرے حکومت کی جب ان کی رُخصت کا وقت آیا تو کاروبار سلطنت کا مسئلہ پیچیدہ ہوچکا تھا۔ بیسیویں صدی میں ہندوستان کے طرز حُکومت کا انتخاب ایک بالکل نیا اور اہم تاریخی مرحلہ تھا۔ بادشاہت سے جمہوریت تک کے سفر کیلئے جو وقت درکار تھا وہ برعظیم کو مُیسر نہ آیا‘ جب ترقی یافتہ ممالک یہ سفر طے کررہے تھے ہر عظیم انگریزوں کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کڑے وقت میں قائداعظم نے فیصلہ کیا برعظیم کی حُکومت میں مُسلمانوں کو کیا حصہ ملے کے بجائے برعظیم میں حصہ ملے یعنی وہ حکومت میں حصہ وصول کرنے کے بجائے برعظیم میں اپنا حصہ مانگیں جس نے یہ مُطالبہ سُنا اسے حیرت ہوئی‘ بیشتر کو مُسلمان اقلیت کی اس جرا¿ت پر اور کُچھ لوگوں کو قائداعظم کی فراست پر....
یہ اعزاز مُحمد علی جناح کے حصہ میں آیا کہ وہ جمہوری سیاست کے آغاز پر برعظیم کے مُسلمانوں کے قطعی اور دوامی فیصلے کو مُرتب کریں۔ اس فیصلے کو ”نظریہ پاکستان“ کہتے ہیں....
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں مُحمد علی جناح کا مقام کیا ہے؟ یہ سوال ان کے ذہن میں بار بار اُٹھتا ہے جن کے دل اس عظیم شخصیت کی یاد میں پُر ہیں۔ ایک لیڈر نے کہا کہ وہ برعظیم میں ٹیپو سُلطان کے بعد مُسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی شخصیت ہیں کسی نے کہا اورنگزیب عالمگیر کے بعد کارزار کفرودیں میں کامیاب ہونے والے مُسلمان سیاستدان ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں روایت میں ہمارے ترکش کا آخری اور دور جدید میں ترکش کا پہلا نمبر ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے شہاب الدین غوری تھا جس نے برعظیم میں مُسلم حُکمرانی کی بنیاد رکھی‘ صدیوں بعد اور انگریزوں کے جانے کے بعد جمہوریت آئی۔ نیشنلزم آیا‘ سوشلزم کے ڈنکے بجے‘ ایجاد و دریافت کا ڈھیر لگ گیا تو دوسری طرف نظریات اور تعصبات کا انبار لگا۔ دُنیا یکسر بدل گئی یہ نئی دُنیا سیاسی تنظیم‘ جلسہ‘ جلوس‘ تقریر‘ بیان‘ قرارداد‘ مُطالبہ‘ بحث‘ مذاکرات‘ انتخابات‘ قانون‘ آئین اور راست اقدام کی دُنیا تھی۔ اس نئی دُنیا میں ایک نئے شہاب الدین غوری کی تلاش تھی جو ایسی فتوحات کرے جن کا اثر صدیوں تک محسوس ہو یہ کام مُحمد علی جناح نے کیا۔ تن تنہا اور محض سات سال کے مُختصر عرصے میں .... یہ ایک مُشکل اور کٹھن وقت تھا‘ جارج پنجم کی بادشاہت تھی انگریز کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ ہندو اکثریت میں تھے اور تعلیم و تجارت میں آگے‘ تنظیم میں بہت آگے‘ ان کے پاس رہنماﺅں کی کھیپ کی کھیپ تیار تھی اور بعض اتنے مقبول تھے کہ اپنی زندگی میں ہی مہاتما اور دیوتا بن گئے۔ انگریز اور ہندو دونوں اپنے نفع و نقصان کے معاملے میں بہت دوراندیش تھے۔ اس لئے آزادی کی تحریک کے باوجود ایک دوسرے کے حامی تھے۔ مُحمد علی جناح اس منظر میں جب آئے تو یہ صادق ہوا کہ وہ آیا.... اس نے دیکھا‘ وہ وہ سب پر چھا گیا‘ منتشر اور مایوس لوگ مُتحد اور پُراُمید ہوگئے۔ منتشر تھے تو قومیت کہلاتے تھے‘ متحد ہوئے تو قوم بن گئے‘ مایوس تھے تو علیحدہ ووٹ کا حق مانگتے تھے‘ پُراُمید ہوئے تو علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے لگے جو اس برصغیر میں مظلوم اقلیت سمجھے جاتے تھے وہ اس چوتھائی حصے میں حُکمران اکثریت بن گئے۔ اس شخص کی بدولت جسے قائداعظم محمد علی جناح کہتے ہیں۔سات سال کے مُختصر عرصے میں وہ تحریک جسے دیوانگی‘ خام خیال اور محض شاعری کہا جاتا تھا فرزانگی‘ پُختہ کاری اور نثر میں لکھی ہوئی تاریخ بن کر سامنے آگئی۔ کارلائل نے کہا تھا بڑا آدمی آسمان سے گرنے والی بجلی کی طرح ہوتا ہے‘ عام آدھی ایندھن ہوتا ہے جو اس بجلی کے انتظار میں رہتا ہے تاکہ اس کی بدولت وہ بھی آگ پکڑے‘ مُرشد کہتا ہے کہ 1940ءسے 1947ءکے درمیان دل مُسلم میں پیدا ہونے والی حرارت کی سمجھ ہمیں آگئی۔
مولانا فقیر اللہ ہاشمی کہتے ہیں جب دل مُسلم کو حرارت دینے والے کو اللہ نے اپنے پاس بُلا لیا تو میں نے اس جسم کو غسل آخرت دیا وہ اس طرح باوقار‘ تروتازہ اور مستحکم تھے جیسے زندگی میں تھے‘ ان کی رُوح اور ان کا جسم دونوں اطہر تھے اور تاقیامت اطہر رہیں گے۔ قائداعظم تیری عظمت کو سلام‘ کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔ع
خاکِ قبرش ازمن وتُو زندہ تر
اس قبر کی مٹی بھی مُجھ اور تُجھ سے زیادہ زندہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن