”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“

جناب حضرت محمد علی جناح بیسویں صدی کے عظیم رہنما تھے۔ انہوں نے مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہمارے پیارے قائد اور محسن ایک عظیم سیاسی رہنما تھے۔ ہم پاکستان میں رہنے والے کبھی بھی ان کے احسانات سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ وہ بیک وقت کئی محاذوں تن تنہا آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ ان کو شاطر انگریز حکمرانوں، متعصب ہندو اور بہت سے غدار مسلمانوں کا سامنا تھا۔ لیکن وہ ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے اسلام کے سپاہی کی حیثیت سے مصروف عمل رہے۔ آپ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے LINCONS INN کو صرف اس لیے ترجیح دی کہ اس کے دروازے پر دنیا کے بڑے بڑے قانون سازوں میں پیغمبر اسلام کا عظیم نام بھی شامل تھا۔ مولانا حسرت موہانی کا بیان ہے کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے دہلی گئے اور قائداعظم سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ملازم نے معذرت کی وہ کسی اہم کام میں مشغول ہیں اور وہ اس وقت ان سے نہیں مل سکتے لیکن وہ بھی اپنی دھن کے پکے تھے اور انہوں نے مغرب کی نماز لان میں ادا کی اور اس کے بعد ٹہلنے لگے اسی دوران وہ کوٹھی کے برآمدوں میں گھومنے لگے جب وہ ایک کمرے کے پاس سے گزرے تو انہیں ایسا لگا کہ قائد کسی سے گفتگو کر رہے ہیں انہوں نے کھڑکی سے کمرے کے اندر جھانکا۔ مولانا حسرت موہانی فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ”اندر کمرے میں فرش پر مصلہ بچھا ہوا تھا۔ اور قائداعظم باری تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی فلاح و بہبود ، حصول آزادی، اتحاد، تنظیم اور پاکستان کے قیام کے لئے گڑگڑا کر التجا کر رہے تھے۔ مولانا نے یہ واقعہ کانپور میں مسلم لیگ کے ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کے دوران بیان کیا۔
قائد کی زندگی اور ان کے کردار کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا وہ طمع اور لالچ سے بہت دورتھے۔ ان کو وائسرے کی ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت ”سر“ کا خطاب یہاں تک کہ متحدہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ ایک دفعہ نہیں متعدد بار پیش کی گئی ہیں لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ہر بار ٹھکرا دیا اور انگریزوں اور ہندوﺅں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
پاکستان کا معرض وجود میں انا اصل میں اسلام کی عظمت کا بین ثبوت ہے۔ نبی پاک محمد کی زندگی میں ریاست مدینہ کے قیام کے بعد یہ امر پہلی دفعہ ظہور پذیر ہوا۔قائد نے مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ مسلمان نوآبادیاتی طاقت کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد ظالم اور متعصب ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں رہ سکتے۔ قائد کی اسلام سے محبت کا اظہار اس پیغام سے ہوتا ہے جو کہ انہوں نے فروری 1948ءمیں امریکی نامہ نگار کے ذریعے امریکی عوام کو دیا۔
انہوں نے فرمایا کہ”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے یہ کام دستور ساز اسمبلی کرے گی۔ لیکن مجھے قوی یقین ہے یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہو گا ان اصولوں کاہماری زندگیوں پر اطلاق اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا۔ ہم انسانی مساوات اور انصاف کے حامی ہیں“
قارئین! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانان ہند پر رحم کھا کر انہیں قائداعظم جیسا ایماندار، نڈر اور اسلام کی محبت سے سر شار زیرک رہنما عطافرمایا اور ان کی ان تھک کوششوں سے اگست 1947ءمیں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت وجود میں آئی۔ ایک بہت ہی حیران کن بات یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں پاکستان کے علاوہ کوئی ایسی ریاست وجود میں نہیں آئی جو قدم بہ قدم ریاست مدینہ سے اتنی گہری مماثلت رکھتی ہو۔
دوقومی نظریے پر قائم ہوئی ہو اور ریاست مدینہ کا قیام رسول پاک نے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی اس آیت مبارکہ پر کیا جس میں فرمایا گیا کہ: ” کہہ دیجئے اے کافرو، نہیں عبادت کرتا میں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہیں ہو تم عبادت کرنے والے جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں عبادت کرنے والا ہو ں ان کی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور تم نہ عبادت کرنے والے ہو، اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین“ اور ہمارے قائد جناب محمد علی جناح نے قومیت کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر قائم کی یعنی یہ قومیت نسل رنگ اور وطن کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریئے، ایک عقیدے، ایک کلمے کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ دوسری مماثلت یہ ہے کہ ہمارے رسول پاک نے گورے اور کالے، عجمی اور عربی سب کا فرق مٹا کر ان کو ایک امت قرار دیا۔
وقت تقاضا کرتا ہے کہ ہم قائداعظم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں تاکہ ہمارا پیارا ملک ہمہ جہتی و استحکام حاصل کر کے وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جس کا خواب میرے پیارے قائد اور مسلمانان ہند کے عظیم رہنما نے دیکھا تھا۔ بدقسمتی سے قائد کی وفات کے بعد سے تا حال ہمیں کوئی ڈھنگ کا لیڈر نہیں ملا۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ:
” ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“

ای پیپر دی نیشن