قائداعظم کی راولپنڈی سے منسوب یادیں

محمد ریاض اختر
قیام پاکستان کے ایک برس بعد قوم کو عظیم ترین سانحہ کا سامنا کرنا پڑا‘ برصغیر کے مظلوم‘ مجبور اور مقہور مسلمانوں کا نجات ہندہ اس عارضی دنیا سے رخصت ہوا‘ 11 ستمبر 1948ءکو حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ قوم کو روتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ قوم کو آج تک قائداعظم ثانی لیڈر نہ مل سکا‘ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی یادوں کی خوشبو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے تاہم راولپنڈی عظیم قائد کی یادوں کا مرقع ہے یہاں بانی پاکستان کی آمد بھی ہوئی اور قائداعظم کی محبتوں‘ عقیدتوں اور نصیحوں کے نشان بھی موجود ہیں ۔کرنل ریٹائرڈ سلطان ظہور اختر کی شخصیت پوٹھوار کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ان کے والد محترم مرحوم راجہ حسن اختر قیام پاکستان سے قبل اعلیٰ سرکاری آفیسر تھے راجہ صاحب کی حضرت اقبالؒ سے دوستی کا خوب چرچا رہا‘ کرنل سلطان ظہور اختر کو قائداعظم محمد علی جناح کا اے ڈی جی سی بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آج پاکستان کے حالات پر ان کا دل رنجیدہ ہوجاتا ہے۔
٭....بانی پاکستان ؒکے اے ڈی سی کی باتیں
23 مارچ 1940ءکے روز لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد اگلے روز میرے والد راجہ حسن اختر نے قائداعظم اور عمائدین کو اپنی رہائش گاہ پر چائے کے لئے بلایا۔ بانی پاکستان کی ہمارے گھر یہ پہلی آمد تھی۔ یہاں سب سے تعارف ہوا تو قائداعظم میری طرف متوجہ ہو کر پوچھنے لگے یہ ینگ مین کون ہے؟ میری عمر بارہ سال تھی میرے والد گرامی نے بتایا کہ میرا بیٹا ہے جوہشتم کا طالب علم ہے اسکا میڈیکل کی طرف رحجان ہے۔ آپ نے بچے کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اسے انجینئرنگ کے لئے علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دو۔ بانی پاکستان کی نصیحت ہمارے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی‘ چنانچہ میٹرک کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد علی گڑھ جامعہ میں قائداعظم کی آمد ہوئی اس سے قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے 5 ایسے نوجوانوں کا گروپ بنایا جن کی انگریزی اچھی تھی میں بھی اس گروپ کا حصہ تھا۔ آمد کے بعد قائداعظم سے گروپ ممبران کا تعارف کرایا گیا ۔ جب میری باری آئی تو بتایا گیا کہ یہ سلطان ظہور ہیں راجہ حسن اختر کے صاحبزادے اورآپ کے حکم پر انجینئرنگ کے لئے یہاں آئے ہیں۔ بانی پاکستان یہ جان کر بولے ”او آئی سی“ یاد آگیا‘ یہ نوجوان بہت متحرک اور ذہین ہے۔ آپ نے وائس چانسلر اے بی اے حلیم صاحب سے کہا کہ ہمیں اس جامعہ سے دو اے ڈی سی جی چاہئیں‘ ایک تو یہ نوجوان ظہور اختر ہے دوسرا آپ نامزد کر دیں‘ میرے قائد مہنگی ترین سگار پیتے اور سگریٹ غالباً (CARVAN) تھی ان کا لباس‘ چائے پینے کا انداز‘ سب کا سب منفرد تھا۔ غیر معمولی یادداشت نے انہیں مقبولیت کے اس درجے پر فائز کیا ہوا تھا جہاں انسان صدیوں بعد پہنچتا ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناح جب نوجوان نسل سے ملتے تو بہت مسرور ہوتے‘ آپ کہتے میری عمر 25 برس ہے باقی کا تجربہ ہے۔ کرنل سلطان ظہور کا آبائی گھر راولپنڈی سے متصل کہوٹہ میں ہے جب کہ ایک رہائش گاہ راولپنڈی کے وسط سیٹلائیٹ ٹا¶ن میں ہے۔ اس رہائش گاہ میں ان کا کمرہ قائداعظم سے منسوب چیزوں اور تصاویر سے مزین ہے۔ ایک پورٹریٹ ایسا بھی جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ ان ان کے اے ڈی سی بھی کھڑے نظر آرہے ہیں۔
٭.... عبدالقادر حئی سابق آئی جی اسلام آبادکی باتیں
راولپنڈی سے ہی متعلق حئی خانوادے کے چشم و چراغ عبدالقادر حئی سابق آئی جی بلوچستان اور اسلام آباد میں ان کی خدمات کے سب معترف ہیں۔ قادر حئی بتاتے ہیں ان کے والد محترم ڈاکٹر خواجہ حئی بانیان پاکستان کے عاشق تھے۔ وہ بڑے طمراق اور بڑے فخرسے قائد کی باتیں اور نصیحتیں بیان کرتے۔ ڈاکٹر خواجہ حئی نے بھی اپنی زندگی اصول ‘ دیانت اور خدمت کے تحت گزاری اور یہی نصیحت وہ اپنی اولاد اور احباب کو کرتے ۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالحئی چیئرمین شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج پشاور رہے۔ وہ 1966ءتک پی ایم اے کاکول میں ڈائریکٹر اسٹڈیزڈیپارٹمنٹ رہے 1966ءمیں ریٹائرمنٹ کے بعد سیٹلائیٹ ٹا¶ن راولپنڈی میں آگئے اسلامیہ کالج پشاور میں 1947-48ءکے دوران قائداعظم کی آمد ہوئی، درسگاہ کے سامنے وسیع گرا¶نڈ پر جلسہ (تقریب) رکھی گئی اس کی تیاری اورن منتظمین میں ڈاکٹر خواجہ عبدالحئی بھی پیش پیش رہے انہیںقائد اعظم محمد علی جناح سے مصافحہ کرنے اور ان کی شاباش وصول کرنے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔ جنوری 1990ءمیں وہ اللہ کو پیارے ہوئے ۔ڈاکٹر خواجہ عبدالغنی کے صاحبزادے عبدالقادر جو ان دنوں اپنے والد مرحوم کے علمی مشن کو پورا کر رہے ہیں ۔قادر صاحب نے بتایا کہ والد صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کرنے کے لئے درسگاہ بنانے کا ارادہ کیا سوال یہ تھا کہ سکول کا نام کیا رکھا جائے پھر نئی درسگاہ کو حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام سے منسوب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا چنانچہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحئی نے 1967ءمیں مادر ملت کو خط لکھا اور اس میں اپنی خدمات اور مستقبل کے ارادوں کی بابت بتایا اور کہا کہ وہ اپنی درسگاہ کانام جناح پری پریٹری سکول رکھنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔کچھ دن بعد مادر ملت کے سیکرٹری آر اے خان کی جانب سے جوابی مکتوب موصول ہوا جس میں حضرت فاطمہ جناح نے خواجہ صاحب کے جذبہ تدریس کی تعریف کی اور انہیں باقاعدہ طورپر درسگاہ کو بانی پاکستان سے منسوب کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔
٭.... میاں صدیق اکبر، صدر انجمن فیض الاسلام بتاتے ہیں ، راولپنڈی کے سب سے قدیم یتیم خانے (اپنا گھر) انجمن فیض السلام کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے جس کی سماجی خدمات کا یہ سلسلہ 74 برس پر محیط ہے۔ اس ادارے کا بڑا مقصد بنگال کے قحط میں یتیم ہونے والے بچوں کی کفالت تھی 30 بچوں کی خبر گیری سے شروع ہونے والا سفر آج 1200 نونہالوں تک پھیل چکا ہے انجمن کے پہلے صدر سید مصطفیٰ شاہ خالد گیلانی (1943-44ئ) تھے .... 27 جولائی 1944ءانجمن ان کے عہدیداران اور کارکنوں کے لئے عید سعید کا دن تھا مسلمانوں کے محبوب لیڈر قائداعظم انجمن فیض السلام کمیٹی محلہ وزٹ کے لئے راولپنڈی آئے آپ کا تاریخی استقبال ہوا‘ آپ نے انجمن کی خدمات کو سراہا اور 500 روپے عطیہ بھی دیا دوسری خوشی 1962ءمیں دیکھی گی جب مادر ملت حضرت فاطمہ جناح یہاں دورے پر تشریف لائیں آپ نے انجمن کے 19 ویں اجلاس کی صدارت بھی کی آپ کا کہنا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے مبارک ہاتھوں سے لگایا پودا خوب توانا ہو رہا ہے ۔ جوں جوں یتیم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اس فلاحی ادارے کے کام میں اضافہ کے ساتھ منتظمہ کمیٹی کے اراکین میں اضافہ بھی ناگزیر ہوتا چلا گیا میاں حیات بخش کی صدارت میں تشکیل دی گئی منتظمہ کمیٹی کے ممبران کی تعداد بڑھائی گئی جن میں راجہ غلام قادر غبار‘ سید مصطفیٰ شاہ گیلانی‘ حکیم محمد ایوب‘ حکیم محمد اسلم حیات اور الحاج مولا بخش نمایاں ہیں ان شخصیات کے ساتھ اس ادارے کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جن وسیع القلب‘ متوازن اور اصلاح معاشرہ کی تڑپ رکھنے والے سماجی کارکنوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان میں ملک جمال الدین قاضی سید صغیر‘ ڈاکٹر ایم ڈی خان‘ پروفیسر محمد یعقوب ہاشمی‘ مرزا مسعود پرویز‘ رشید نثار‘ حاجی محمد‘ پیر صلاح الدین میاں پرویز اسلم‘ محمد فاضل‘ حاجی محمد تاج اور پروفیسر عبدالحمید راٹھور نے ادارے کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ یتیم بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باعث ٹرنک بازار کی عمارت کے ساتھ یتیم خانحے کو ہر سے باہر کسی کھلی جگہ پر منتقل کرنے کا متفقہ طورپر پروگرام طے پایا۔ بحمداﷲ فیض آباد راولپنڈی مری روڈ کے کنارے 26 کنال قطعہ اراضی کافی عرصہ پیشتر انجمن فیض السلام کے نام ہو چکی تھی اس لئے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ 1968ءمیں وہاں ایک عظیم الشان وسیع و عریض کمپلیکس کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ادارے کی سرپرستی کرنے والے مخیر حضرات نے اندرون و بیرون ملک سے بڑھ چڑھ کر کمپلیکس کی تکمیل کے لئے عطیات بھیجے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...