قائدِ اعظم محمد علی جناح ، وژنری رہنما

Sep 11, 2020

امتیاز رفیع بٹ

11 ستمبر 1948 کو قائداعظم محمد علی جناح 71 سال کی عمر میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ۔ وہ ایک غیر معمولی وکیل، ایک قابل ذکر سیاستدان اور اپنے لوگوں کے ایک مہربان رہنما تھے۔ ان کی زندگی، وژن اور کارنامے آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ قائد نے پاکستان جیسے معجزے کو ممکن بنایا ۔ بدقسمتی سے، انہوں نے پاکستان کے مستقبل کاایسا ادراک نہیں کیاہوگا لیکن 2020 میں ابھی تک دیر نہیں ہوئی، قائد کی رہنمائی اور ان کے افکار ہمیں خوشحالی اور ترقی کی راہ پر واپس لا سکتے ہیں ۔ ان کی برسی کے دن، قوم کو چاہئے کہ وہ اس عظیم المرتبت انسان کا شکریہ ادا کرے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہونا اس کا بہترین طریقہ ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے لائحہئِ عمل قائداعظم کی زندگی اور طرزِ عمل میں پوشیدہ ہے۔ قائد اعظم کو جدیدیت اور اصلاحات سے پیار تھا۔ کون اس بات سے انکارکرسکتاہے کہ مسٹر محمد علی جناح، اپنی زندگی کے ایک خاص موڑ پر، برصغیر میں جدید ترین نظریات کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور تھے۔ جب وہ لندن کے سے اپنے وطن واپس آئے تووہ سب سے اچھا لباس پہننے والے، انتہائی نامور اور ماہر وکیل تھے۔ نہ صرف لباس میں، بلکہ اپنے خیالات میں بھی وہ انتہا کے نفاست پسند تھے ۔ 1920 اور 30کی دہائی میں دنیا استعمار کی ناانصافیوں سے آگاہ ہو چکی تھی۔ غلامی کی زنجیریں کمزور ہورہی تھیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اس کا علم تھا انہوں نے برصغیر کی آزادی کے لئے متحرک جدوجہد شروع کر دی۔ مقامی سطح پر وہ اتحاد اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اپنی مشرقی اسلامی اقدار کے سچے پیرو کار تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ، ان کی تقاریراور طرز عمل ان کے جدید تشخص کو ظاہر کرتے تھے۔ اسی طرح، قائد مسلم امہ (ملت اسلامیہ) کی اصلاح پر یقین رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان ان میں سے ایک ایسی روشن خیال قوم بن جائے، جواسلام کی اقدار کو نئے معنی بخشے اور مغرب سے کہیں بہتر بن جائے۔ پاکستان میں بہت سے دھڑے اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مذہب اور ہماری روایات ہی ہیںجو ہمیں آگے بڑھا سکتی ہیں۔ مناسب اصلاح اور جدت کے بغیر، ایک فلاحی ریاست کا نظریہ ہمیشہ ایک خواب ہوگا۔تجزیاتی نقطہ نظر سے، قائد کانگریسی ہندوؤں کے مظالم اور بدتمیزبرتاؤ کے نتیجے میں مطالبہئِ پاکستان کے قائل ہوئے۔ قائد نے محسوس کیا کہ انتہا پسند ہندو نظریہ کی تفرقہ انگیزی کے تحت برصغیر کے مسلمان غالب ہندو آبادی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ تھا۔
مسلمانوں کی نسلیں داؤ پر لگی تھیں، انہیں ہندو ئوں کے غلام بننے کا خطرہ تھا، شایدانہیں ہندو دیوتاؤں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہونا پڑتا۔ چنانچہ، وہ ''دو قومی نظریہ'' کے شدید حامی بن گئے۔ ایک ایسا نظریہ جس کی ہندوؤں نے زور شور سے تردید کی، آج تک اس کی من گھڑت تشریح جاری ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 2020، اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ قائد بالکل درست تھے، برصغیر کے مسلمان ہندو نظریہ کے
 تحت کبھی بھی سکون سے نہیں رہ سکتے تھے۔ کشمیریوں پر ظلم، بابری مسجد کی مسماری، مسلمانوں کے انسانی حقوق کی معطلی، دہلی کے مسلم مخالف ایجنڈے، اکثریتی مسلمانوں کی تہلکہ خیزاقلیتی حیثیت اور نریندر مودی سرکار کا ہندو انتہا پسندانہ رویہ ''دو قومی نظریہ'' کی سچائی کا زندہ ثبوت ہیں۔ برصغیر کے حوالے سے گاندھی کا ورژن صرف کاغذات میں موجود ہے۔ یہی کہانی ہندوستان میں سکھوں کے متعلق بھی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے پاس،اللہ تعالیٰ کا زیادہ شکر ادا کرنے اور اس نعمت کی اہمیت کا احساس کرنے کی ٹھوس وجہ ہے جو پاکستان کی صورت ہمارے پاس موجود ہے۔ قائد نے دنیا کے سامنے پاکستان کی منفرد شناخت کیلئے کئی منصوبے مرتب کیے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے ان کا وژن اخلاقیات، انصا ف  اور الفاظ سے بالاتر برابری پر مشتمل تھا۔قائد نے ہمارے لئے کیارہنما اصول چھوڑ ے؟ انہوں نے 12 اکتوبر 1945 کو کہا:''یہودیوں کے یروشلم پر قبضہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہودی اپنے مذموم منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے اور میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکہ ان کی پشت پناہی ترک کر دیں پھر میں دیکھوں گا کہ یہودی یروشلم کو کس طرح فتح کرتے ہیں۔ لوگوں کی خواہشات کے خلاف پہلے ہی یہودی، جو نصف ملین سے زیادہ ہیں، یروشلم میں رہائش پذیر ہیں۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ دوسرے کون سے ملک نے ان کو رہائش دی ہے؟ اگر اب تسلط اور استحصال کیا جاتا ہے تو، وہاں نہ امن ہو سکے گا اور نہ جنگ کا خاتمہ ہوگا‘‘۔

مزیدخبریں