محمد علی جناحؒ کی طلسماتی اور سحر انگیز شخصیت کا کرشمہ تھا کہ ہندوستان کے سارے مسلمان اپنے گروہی اور علاقائی اختلافات بھلا کر ان کی کی قیادت میں متحد ہو گئے ۔ انہوں نے برصغیر کا نقشہ بدل دیا اور تاریخ کا وہ معجزہ رونما ہو گیا جس کا نام پاکستان ہے۔ دنیا کی وہ سپر پاور(برطانیہ) جس کی عالمگیر حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھااپنے تمام وسائل کے باوجود قائداعظمؒ کے عزم کو پابہ زنجیر نہ کر سکی اور تحریکِ پاکستان کے بے پناہ سیلاب کے آگے کوئی بند نہ باندھ سکی۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے قیامِ پاکستان کے کئی برس بعد ایک انٹرویو میں کہا: ’’مجھے صرف اس مقصدکے لیے ہندوستان بھیجا گیا تھا کہ میں اسے بہر صورت متحد رکھ سکوں اور ایک متحدہ ہندوستان ہی کو اقتدار منتقل کروں۔ میں نے اس مقصد کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ دن رات ایک کر دیے۔ راتوں کی نیند حرام کی‘ لیکن میرے مقصد کی راہ میں ایک ایسا شخص حائل تھا جو پہاڑ کی طرح رکاوٹ بنا رہا اور وہ تھا…محمد علی جناحؒ۔‘‘۔ہندوستان کے تیس کروڑ ہندو اور ان کی منظّم ومضبوط سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگرس مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے بے شمار وسائل کے ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کو نہ روک سکے۔ گاندھی نے کہا تھا: ’’قرار دادِ پاکستان ایک پاپ ہے۔ یہ ہماری دھرتی‘ ہماری گائو ماتا کو چیرنے پھاڑنے کی اسکیم ہے۔ ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ وہ گاندھی جسے ہندو اپنا مہاتما اور اوتار سمجھتے ہیں اپنی تمام تر مبینہ ’’روحانی طاقت‘‘ کے باوجود قائداعظمؒ سے شکست کھا گیا۔ قائداعظمؒ کی عظمت اور طاقت کا اندازہ ان الفاظ سے لگائیے جو بلبلِ ہند مسز سروجنی نائیڈو نے کہے تھے: ’’اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی‘ ایک سو نہرو اور ایک سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آتا۔‘‘
قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک صائب الر ائے عظیم سیاستدان تھے۔ وہ حالات کا رخ اور معاملات کی باریکیوں کو بھانپ لیتے تھے اور اس کی روشنی میں ایسی گائڈ لائن تیار کرتے تھے جس سے مسلم کاز کو فائدہ پہنچے۔ انکی 46سالہ سیاسی زندگی کے مطالعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نازک مواقع پر ثابت قدمی سے جمے رہے اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس سے انکے سیاسی استحکام اور انکے سیاسی کردار کی مضبوطی کا علم ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ان کے سیاسی کردار کو دنیا کے بڑے بڑے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو قائداعظمؒ کی ذات اور ان کی بے مثال قیادت پر جو یقینِ کامل اور اعتمادتھا وہ کسی اور پر نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے دوران جس سیاسی بصیرت‘ بے باکی‘ راست بازی‘ حیران کن دیانت اور ناقابل یقین حد تک بے لوث ایثار و قربانی کی مثال اپنے طرزِ عمل اور کردار سے قائم کی تھی مسلمانوں کے دوسرے راہنمااس کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے تھے۔ قائداعظمؒ کا کارنامہ کیا تھا ذرا سٹینلے والپرٹ (مصنف جناح آف پاکستان) کے ناقابلِ فراموش الفاظ میں دیکھئے: ’’بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہے جو تاریخ کے دھاڑے کا رخ موڑ دیتی ہیں۔ ان سے کہیں کم تعداد میں ایسی شخصیات ہوں گی جو دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دیں‘ مگر ایک نئی قوم اور ایک نئے ملک کی تخلیق کا سہرا تو شاید ہی کسی کے سر ہو۔ قائداعظمؒ نے یہ تینوں کارنامے کر دکھائے۔‘‘
قائداعظمؒ دیکھنے میں دبلے پتلے اور نحیف و نزار تھے مگر جو شجاعت‘ جو جرأت اور دلیری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ جتنے بے باک اور نڈر وہ تھے کوئی دوسرا نہ تھا۔ ان کی ساری شخصیت ان کے اس زریں اصول کی آئینہ دار تھی۔ ’’حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ کبھی سودے بازی نہ کی جائے۔‘‘جتنے بے لوث ،ہر طرح کے لالچ سے پاک اور ایثار پیشہ وہ تھے، غریب اور نادار عوام کا جتنا احساس اور ان سے جتنی ہمدردی انہیں تھی‘ نازک اور دل دہلا دینے والے حالات میں اپنے جذبات پر جتنا کنٹرول انہیں حاصل تھا‘ یقین محکم اور خود اعتمادی کی جو بے اندازہ دولت اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہوئی تھی‘ فراست و بصیرت کی جو نعمت ان کے حصے میں آئی تھی‘ حکمت و تدبر کے خیر کثیر سے جو وافر حصہ ان کو ملا تھا‘ ان کی تحریر و تقریر جتنی واضح‘ دو ٹوک‘ موثر اور دل نشیں ہوتی تھی ان کی پوری شخصیت میں جو کشش اور طلسم تھا‘ اس کی مثال دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لیڈر میں نہیں ملتی۔انہوں نے مسلمانان برصغیر کو ’’ایمان ، اتحاد ، تنظیم‘‘ کا درس دیا۔