قانون کے طالبعلم ہونے کے ناطے بطور بہ طور چیف جسٹس آف پاکستان، اس دوران قائم مقام صدر پاکستان اور بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر وطنِ عزیزکے لیے بھی جو ممکن تھا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے مجھے جو کچھ دیا وہ ایک آفتاب کی مانندہے اور میری خدمات اس آفتاب اور مہتاب کے سامنے چراغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں پہاڑ کے سامنے رائی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ قانون کے شعبے سے میری وابستگی کے پس منظر میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے INSPIRATION بھی موجود ہے۔ وکیل بننے کی خواہش کو قائداعظم سے بچپن میں ملاقات نے بھی مہمیز دی۔ نوائے وقت کے انہی صفحات میں قائداعظم سے دہلی میں ان کے گھر میں پرائمری کے ساتھی طالبعلوں کے ہمراہ ملاقات کا احوال بیان کر چکا ہوں۔ اس ملاقات میں ہم نے اپنی جیب خرچ کی بچت سے تحریک پاکستان کے لیے چندہ بھی دیا ۔ قائداعظم کے فوٹو گرافر نے مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح اور قائداعظم کے ساتھ ہماری تصویر بھی بنائی تھی۔ اس کے بعد قائداعظم کے جلسے میں مجھے میرے کزن سعید زکریالے گئے۔ وہ مسلم لیگ کے سرگرم کارکن ہونے کے باعث جلسے کی انتظامیہ میں شامل تھے۔ قائداعظم پنڈال میں آئے دھکم پیل ہونا تو فطری امر تھا۔ اس پر یہ سوچ کر رونے لگا کہ قائداعظم اس بھیڑ میں کتنی تکلیف سے دوچار ہوںگے۔ یہ واقعات تفصیلاً زیر طبع کتاب ’’ارشاد نامہ‘‘ میں مرقوم ہیں۔
قائد کی زندگی کے گوشے اُسی دور میں کھل کر سامنے آنے لگے تھے وہ عزم،حوصلے جرأت اور خود اعتمادی کے کوہِ گراں تھے۔بطور وکیل اس بات نے میری خود اعتمادی کو مہمیز دی:جناح کو اپنے آپ پر ناقابل یقین حد تک اعتماد تھا، انہوں نے یہ بات اس واقعے کے تناظر میں کہی جب ایک دن کسی جج نے غصے میں جناح کو کہا کہ مسٹر جناح یاد رکھو کہ تم کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہو جناح نے برجستہ جواب داغ دیا جناب والا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو خبردار کروں کہ آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ہیں۔ نوجوان وکلا کو قائد کے کردار سے خوداعتمادی اور رہنمائی لینی چاہئے مگر خود اعتمادی کا مطلب ججز کے احترام سے روگردانی ہرگز نہیں ہوتا۔
قائداعظم کو زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی۔ وہ ایک ٹرم بھی مکمل کر لیتے تو پاکستان کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا ہوتا۔ قائد کے بعد ان کے لیول کے ایک دو رہنما ہی پاکستان کو مل جاتے تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو چکاہوتا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ مگر ایسا آج تک ممکن نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس کرپشن ہے بے ایمانی اور رشوت کا فروغ نظر آیا۔ آج کئی قومی لیڈروں کو کرپشن کے الزامات اور مقدمات کا سامنا ہے۔ بہت سے بیوروکریٹس پر بھی مقدمات ہیں۔کئی کو سزائیں ہو چکی ہیں اور کئی کے خلاف کیس تیار ہو رہے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہونی چاہے۔ اس میںخواہ کوئی بھی ماخوذ ہو۔ بلوچستان کے معمولی بیوروکریٹ کے گھر سے اربوں روپے نقدی برآمد ہوئے جن کو گننے کے لیے کاؤنٹنگ مشین منگوانی پڑی تھی۔ایسا ہی ایک معمولی افسر کراچی میں گرفتار ہوا جس کے اثاثوں اور جائیدادوں کی مالیت کھربوں میں بتائی گئی ہے۔ کرپشن میں ماخوذ اور مطلوب افسر شاید مجبوراً اس میں ملوث ہو گئے ہوں۔ ان کو اپنی ملازمت کی فکر ہو۔ اگر انہوں نے قائداعظم کے اس فرمان کو حرزِ جاں بنایا ہوتا کہ سرکاری ملازم حکومت کے نہیں ریاست کے ملازم اور ان کی وفاداری ہر صورت ریاست کے ساتھ ہونی چاہیے تو ان کو مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔یہ فرمان آج کے ہرسرکاری افسر کو ازبر ہونا اور اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ آج پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کا بنیادی ایجنڈا ہی کرپشن کا خاتمہ اور کڑا احتساب ہے۔
گزشتہ دنوں یوم دفاع اور یوم شہدا کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان نے ہمیشہ کی طرح ایک غیرذمہ دارانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے غیرقانونی اقدام کے بعد خطے کے امن کو ایک مرتبہ پھر شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے، اس حوالے سے ہم کسی بھی یک طرفہ فیصلے کوتسلیم نہیں کرتے۔بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیا تھا۔میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ان کے اس قول کا ہر لفظ ہمارے لئے اہم اور ایمان کا حصہ ہے۔ قائداعظم کی کشمیر پر کیا کمٹمنٹ تھی ؟۔ذرا ملاحظہ فرمائیں:
قائد اعظم نے ان دنوں جب ابھی فوج منظم ہورہی تھی قائم مقام آرمی چیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیرکی طرف پیش قدمی کا حکم دیا تھا لیکن جب دونوں ملکوں کے مشترکہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل ایکنلکAuchinleckاور جنرل گریسی نے قائداعظم کو اس اقدام کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کیا تو قائداعظم نے بطور گورنر جنرل جاری کیئے گئے اپنے سابق حکم کو واپس لے لیا۔اُن دنوں پاکستانی اور بھارتی آرمی چیف ایکنلک کی کمانڈ میں تھے۔گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی جانب سے کشمیر کی جانب پیش قدمی کے حکم کو واپس لیئے جانے کا تذکرہ میجر جنرل وجاہت حسین نے اپنی کتاب "Memories of a soldier" میں کیا ہے مزید براں پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی نے بھی اپنی کتاب "The emergence of Pakistan"میں اس بات کی تصدیق کی ہے۔عمومی تاثر ہے کہ جنرل ڈگلس گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکا رکردیا تھا،ایسا ہرگز ممکن نہیں۔
کشمیر پر جب بھی حکمرانوں کی قائد اعظم جیسی کمٹمنٹ ہوگی تو کشمیر کی آزادی زیادہ دور نہیں رہے گی۔قائد اعظم سیاست میں بھی اعلیٰ اخلاق کا کامل پیکر تھے۔ 1946 کے انتخابات میں اے ایچ اصفہانی نے قائد اعظم سے کہا کہ ان کا مخالف امیدوار کہتا ہے کہ مجھے ساڑھے تین سو روپے دے دو تو میں آپ کے حق میں بیٹھ جاتا ہوں ۔ قائداعظم نے ان کو منع کیا اور کہا کہ یہ غیر اخلاقی بات ہوگی۔ تمہاری عزت اسی میں ہے کہ تم مقابلہ کرو اور انتخاب جیتو تاکہ عوام میں تمہاری عزت اور وقار برقرار رہے۔سندھ کے لیڈروں نے قائد اعظم سے پارٹی فنڈ کا مطالبہ کیا تاکہ کچھ لوگوں کو پیسے دے کر ان کے ووٹ خریدے جا سکیں ۔ قائد اعظم نے سختی سے منع کیا اور کہا کہ میں انتخابات ہارنا تو پسند کروں گالیکن ووٹ خریدنے کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں دوں گا۔ یہ واقعہ ہماری سیاسی اشرافیہ کیلئے یقیناً مشعل راہ ہے۔
٭…٭…٭
قائداعظم، قانون و سیاست کے آفتاب و مہتاب
Sep 11, 2020