کیا نئے آئی جی صاحب وسیم اکرم پلس کو مطمئن کرپائیں گے

 پاکستانی سیاست ان دنوں معمول سے کچھ زیادہ مرتعش نظر آرہی ہے۔بظاہر حکومت کو اپنے ہی اتحادیوں سے خطرہ ہے۔ کچھ لوگ اس صورت حال کو ایک غیر فعال اپوزیشن کے پیرائے میں دیکھ رہے ہیں۔حکومت کی کار کردگی جہاں سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے وہیں حکومت کی جانب سے انتظامی معاملات میں دوہرے معیار نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ سے تنازع پر آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو عہدے سے ہٹا کر گریڈ 21کے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب انعام غنی کو نیا آئی جی پنجاب تعینات کردیا گیا۔وزیراعظم عمران خان نے آئی جی پنجاب کی تبدیلی کی منظوری دیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب انعام غنی کو نیا آئی جی پنجاب تعینات کیا۔ تحریک انصاف کے محض دو سالہ دوراقتدار میں پنجاب میں پانچواں آئی جی پنجاب تبدیل کیا گیا ہے۔ کابینہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے آئی جی کی تبدیلی کی وجہ ان کے خلاف ملنے والی شکایات بیان کی ہے۔مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا معاملہ سیاسی کے ساتھ قانونی بھی ہے۔ پولیس آرڈر کے تحت آئی جی کی مدت ملازمت تین سال ہے جس کی بار بار خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور اس معاملے پر مسلم لیگ ن عدالت میں درخواست دائر کرے گی۔ سندھ میں اگر آئی جی کی تبدیلی کا مسئلہ ہو تو وفاقی حکومت قانون کی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی ہے اور معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ایک نجی چینل پر وزیر اعظم نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ شعیب دستگیر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور اب پنجاب میں معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ اس کے دو ہفتے بعدہی آئی جی پنجاب کی تبدیلی سے کیا نتیجہ اخذ کیاجائے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی تو پہلے ہی سے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اب تو ان کے سلیکشن کا کرائی ٹیریا بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔تبدیلی سرکار کے دعوے اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق تو کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ دو سال گزر چکے ہیں اور ابھی تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کے لیے ایسے آئی جی کا انتخاب عمل میں نہیں آسکا ہے جو تبدیلی سرکار کو مطمئن کر سکے۔ تبدیلی سرکا راس سے قبل آئی جی ڈاکٹر کلیم امام کو صرف تین ماہ 13 جون 2018ء سے 11 ستمبر 2018، تک، آئی جی محمد طاہرکو 11 ستمبر 2018ء سے 15 اکتوبر 2018 تک، آئی جی امجد جاوید سلیمی کو 15 اکتوبر 2018 سے 17 اپریل 2019 تک، آئی جی کیپٹن (ر) عارف نواز خان کو17 اپریل 2019 سے 28 نومبر 2019 تک ہی برداشت کر پائی۔ شعیب دستگیر پانچویں آئی جی پنجاب تھے جو 28 نومبر 2019 کو تعینات ہوئے،وہ 9ماہ 10دن آئی جی پنجاب رہے۔حکومت نے سابق آئی جی پنجاب شعیب شیخ کو سیکرٹری نارکوٹکس تعینات کرکے اپنی جانب سے یہ پنڈورا باکس بند کردیا ہے۔
 انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب شعیب دستگیر اور نئے تعینات ہونے والے سی سی پی او عمر شیخ کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آئی تھیں تووزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے آئی جی پنجاب نے ملاقات کی تھی اور ان کے تحفظات سنے تھے۔عثمان بزدار نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو بلا کر موقف سنا گیا، سی سی پی او کو بھی بلایا جائے گا، سب کی سفارش کرتا ہوں اور کوئی فیورٹ نہیں۔دوسری جانب پولیس سروس آف پاکستان چیپٹرکے اجلاس میں عمر شیخ نے بھی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آئی جی پنجاب کی کوئی حکم عدولی نہیں کی، پولیس 
افسران کے اجلاس میں کہی بات کو غلط طریقے سے آئی جی صاحب کوپہنچایا گیا وہ آئی جی پنجاب سے غیرمشروط معافی مانگنے کو تیار ہیں۔سی سی پی او لاہور کا کہنا تھا کہ آئی جی ان کے کمانڈر ہیں اور ان کا حکم ماننا ان کی ڈیوٹی ہے،آئی جی پنجاب نے ابھی تک دو حکم دیئے جن پرعملدرآمد کیا گیا۔ سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا کہنا تھا کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیان پر وزیراعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے کمانڈر کے خلاف بات کرکے رولز کی خلاف ورزی کی۔ قانون کے مطابق کارروائی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔یہ تنازعہ حکومت حل کرنے میں ناکام رہی اور اس کا آسان حل نکالتے ہوئے آئی جی کو تبدیل کرکے ایک ایسی روایت ڈال دی ہے کہ جونیئر افسران اپنے سینئر کی چھٹی کرانے کا سہرا اپنے سر بندھوا سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ نئے آئی جی انعام غنی کی اولین ترجیح صوبے میں امن وامان کا قیام ہونا چاہیے۔ صوبے کے لیے جو بھی بہتر ہوگا، وہ شخص تعینات کر دیا جائے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی آفیسر کو کسی عہدے پر لگائیں اور کوئی آکر کہہ دے کہ اس کو نہ لگائیں۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہبازگل کہتے ہیں کہ اسٹیٹس کو ہرگز قبول نہیں، جو افسرکارکردگی کے زاویوں سے کام نہیں کرتا پانچ تو کیا پانچ سو تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں تو کریں گے،گزشتہ حکومتوں میں افسران حکمرانوں کے ذاتی کام کرتے تھے اس لئے مدت پوری کرتے تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فرازآئی جی لگانا وزیراعظم کی صوابدید جس افسر کو چاہیں لگادیں، جو کارکردگی نہیں دکھائے گا بدل دیا جائے گا۔ہم اگر اس بات کو معیار تسلیم کرلیں کہ ’’جو کارکردگی نہیں دکھائے گا بدل دیا جائے گا‘‘تو پھر کیا وجہ ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ نہیں بدلا جا رہا ہے؟ پنجاب میں آئی جی جیسی اہم پوسٹ پر کارکردگی نہ دکھانے پر پانچ مرتبہ تبدیلی کی جا سکتی ہے تو صوبے کے سربراہ کی تبدیلی کیوں نہیں کی گئی۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پا س نہیں ہے۔ پاکستان میں پولیس اصلاحات کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ہر حکومت نے پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے حیرت سے انگیز طور پر سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے افسر بھی تھانہ کلچر اور پولیس میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے بھی پولیس کے رنگ میں رنگتے گئے۔ آج محکمہ پولیس پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ہر آنے والی حکومت پولیس اصلاحات کی بات کرتی ہے مگر پولیس کو سیاسی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے اور اپنے سیاسی محالفین کو ڈرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے حکمرانوں کے ماتھے پر ایک بدترین داغ ہیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ پولیس خود جرائم کی سر پرستی کا بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے اگر پولیس افسر ز کے خلاف تحقیقات شروع ہو جاہیں تو وہ ایک دوسرے کو بچانے کے لیے کام کرتے ہیں ان حالات میں پولیس اصلاحات بہت ضروری ہیں۔تھانے عقبوت خانے بن چکے ہیں عورت تو دور کی بات ہے شریف مرد بھی تھانے جاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ سماج میں پولیس کا اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔تحریک انصاف نے انتخابی مہم کے دوران پولیس کلچر کی تبدیلی کو اپنے ایجنڈے میں ترجیحی حیثیت دی تھی لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی اس ضمن میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ الٹا ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئی جی کی تعیناتی ہی ایک مسئلہ بن چکی ہے۔پانچ پولیس افسران اس عہدے پر آنے کے بعد ناموزوں قرار دیئے جا چکے ہیں۔موجودہ آئی جی انعام غنی صاحب وسیم اکرم پلس وزیر اعلیٰ کے لیے کب تک قابل قبول رہتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ایک پولیس کا ہی مسئلہ نہیں ہے پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی ق لیگ بھی حکمران جماعت کے رویے سے بے زار نظر آتی ہے اور کھل کر اس کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ بزدار کی طرز حکمرانی کو بدستور کافی تنقید کا سامنا ہے۔ ق لیگ کے لیڈران جو بطور گھاگ سیاستدان پہچانے اور جانے جاتے ہیں حکومت کے بارے میں یہ تہمت اب مزید برداشت صرف اس صورت میں کریں گے اگر ان کے چند تحفظات دور کردیے جائیں۔مونس الہی کے حوالے سے بیرونِ ملک جائیداد کی تفصیلات کی کھوج لگانے کی خبریں آنے کے بعد ق لیگ کی برہمی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر بزدار صاحب کا قلعہ مضبوط ہونے کا اعلان فرما چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صوبے کو بدستور اسلام آباد سے بذریعہ چیف سیکریٹری چلانے کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔سیاسی حلقوں میں اتحادیوں کے ساتھ عمران خان کا رویہ بھی زیر بحث ہے۔عمران خان کے رویے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک کو چلانے والی غیبی طاقتیں ان کے ساتھ ہیں اتحادی جماعتیں کہیں نہیں جائیں گی۔اس بات سے قطع نظرکہ عمران خان کو پاکستانی سیاست میں لانے کا تجربہ فیل ہوچکا ہے یا نہیں اور اس کا متبادل کیا ہوگا زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک کا بحران سیاسی سے زیادہ معاشی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا معیار دن بہ دن خراب تر ہو رہا ہے۔آبادی کا ایک بڑا حصہ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہے۔ حکومت ملک کے اندر اور خطے میں کوئی ایسی پر امن اور مثبت تبدیلیاں نہیں لاسکی جس سے معیشت کے مضبوط ہونے کے امکان پیدا ہوں۔ایسی صورتحال میں وزیر اعظم صاحب کو سنجیدگی سے اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن