پاکستان میں اوسطاً روزانہ تقریباً سات بچے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے
''اگر میں اپنے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے والے مجرم کو جلا کر اس کا جسم خاک بھی بنا ڈالوں، تو بھی میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی،‘‘ یہ کہنا تھا گزشتہ برس قصور میں ایک آٹھ سالہ بچے کی والدہ کا۔ اس خاتون کے بیٹے کو کے ساتھ پہلے زیادتی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا پھر اسے قتل بھی کر دیا گیا۔ کسی بچے کی موت اس کے والدین کے لیے یقینی طور پر بہت بڑا المیہ ہوتا ہے لیکن ان والدین کو کیسے سکون آئے جن کے معصوم سے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ مجرم پہلے جنسی زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔
دو برس قبل شہر قصور کی کم عمر زینب کی تصویر نے سب کے دل دہلا دیے تھے۔ اس بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے مجرم کو سزائے موت دے بھی دی گئی لیکن پاکستانی معاشرے میں ایسے جرائم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ زینب کے قتل کے بعد بھی قصور میں اس نوعیت کے مزید جرائم پیش آ چکے ہیں۔
اب حال ہی میں پاکستان کے شہر مردان میں بھی ایک بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔اور اب چند روز قبل کراچی میں پانچ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی، جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور زیادتی کے بعد وزنی چیز سر پر مار کر قتل کیا۔ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے شرمناک واقعات کے علاوہ خواتین کے ساتھ درندگی کے واقعات بھی المیہ بنتے جا رہے ہیں۔ آج حوا کی ایک اور بیٹی درندوں کے بھینٹ چڑھ گئی۔لاہور موٹر وے پر کھلے آسمان تلے ایک ماں کو بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔اس سے بڑی قیامت اور کیا ہو گی ؟
لاہور کے تھانہ گجرپورہ میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق گوجرانوالہ کے رہائشی درخواست دہندہ کی رشتے دار خاتون کی گاڑی کا کرول جنگل کے قریب پیٹرول ختم ہو گیا تھا اور وہ مدد کے لئے انتظار میں کھڑی تھیں۔
ایف آئی آر کے مطابق درخواست دہندہ کی عزیزہ نے بتایا کہ جب وہ پیٹرول کے انتظار میں کھڑی تھیں تو 30 سے 35 سال کی عمر کے دو مسلح اشخاص آئے، انھیں اور ان کے بچوں کو گاڑی سے نکال کر انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ان سے نقدی اور زیور چھین کر فرار ہو گئے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی ایسے مجرم کے جرم کے اسباب کی تشخیص کے لیے اس عمل کی وجوہات کا ٹھوس تعین اور ان وجوہات کی شدت طے کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریباً بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ کئی واقعات میں جنسی حملہ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا مقصد دوسرے لوگوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنا ہوتا ہے۔‘‘
ایسے زیادہ تر متاثرین بے قصور ہونے کے باوجود کافی حد تک خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اکثر خود سے نفرت کرتے اور غصے کی حالت میں رہتے ہیں۔ کسی انسان کا جنسی زیادتی کا نشانہ بننا اسے نفسیاتی طور پر عموماً ایسے ذہنی دباؤ اور مسلسل دھچکے کی کیفیت میں ڈال دیتا ہے، جسے ماہرین پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔
لیکن کیا کسی نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ایسے جرم کے ارتکاب کے بعد کوئی مجرم خود اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ مرد عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے، جس کے کئی جوابات ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان کئی مختلف عوامل کے نتیجے میں ایسے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ کئی لوگ ایسا بدلہ لینے کے لیے بھی کرتے ہیں اور اسی لیے ان کی نفرت کا ہدف خاص طور پر عورتیں ہوتی ہیں۔۔ ماہرین کے مطابق کسی پر جنسی حملہ کرنا ایک پرتشدد مجرمانہ فعل ہے اور اس کی کوئی بھی دوسری قانونی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔
اگرچہ جنسی زیادتی کے مرتکب کئی مجرموں میں نفسیاتی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق ایسا کوئی نفسیاتی عارضہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا، جو کسی مجرم کو اس امر پر مجبور کرے کہ وہ کسی کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب ہو۔بچوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات گو کہ پوری دنیا میں رونما ہوتے ہیں لیکن پاکستان اسلامی ریاست اور موجودہ ریاست مدینہ کے تصور میں ایسے ہولناک واقعات میں اضافہ سوالیہ نشان بنتے جا رہے ہیں۔