ضائع کرنے کو وقت ان دنوں میرے پاس ضرورت سے زیادہ میسر ہے۔بہتر تو یہی تھا کہ اسے کوئی کتاب لکھنے میں صرف کرتا۔کتاب مکمل نہ بھی ہوتی تو کم از کم دل کو یہ تسلی رہتی کہ اپنے ذہن کو کسی ہدف پر فوکس رکھے ہوئے ہوں۔ بستر پر لیٹے ہوئے سارا دن گزار دینا مگر راحت فراہم کرنا شروع ہوگیا ہے۔خود کو یہ سوچتے ہوئے بھی مطمئن رکھتا ہوںکہ طالب علمی کے زمانے سے بہت متحرک زندگی گزاری ہے۔عمر کے آخری حصے میں گوشہ نشینی اور فراغت شاید میرا حق ہیں۔’’ریٹائرمنٹ‘‘ کا تصور کسی ٹھوس وجہ کی بدولت ہی متعارف ہوا ہوگا۔
ضائع کرنے کو میسر وقت کو میں نے گزشتہ چند دنوں کے دوران علم نجوم کے اسرار جاننے میں بھی خرچ کیا۔ لطف مگر نہیں آیا۔ملکی اور غیر ملکی سیاست پر غور کرنے کی عادت نے اگرچہ زحل اور مشتری کے اس برس کے دسمبر میں ہونے والے ملاپ کے انتظار کو مائل کردیا ہے۔علم نجوم والے مصر ہیں کہ ایسا ملاپ ہر بار ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں لاتا رہاہے۔اب کے دسمبر میں ذاتی مشاہدے سے اس دعوے کو پرکھنے کا موقع نصیب ہوجائے گا۔
علم نجوم سے قطع نظر ان دنوں علم سیاسیات کے گہرے مشاہدے سے کلیدی اصول اخذ کرنے والوں کے مابین ایک اہم موضوع پر مدلل اور مفصل بحث جاری ہے۔ان کی اکثریت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کرونانے ریاست اور اس کی قوت واختیار کو توانا تر بنادیا ہے۔اس کی بدولت لاک ڈائون ہوئے۔ لوگوں نے چہروں پر ماسک لگانے کی عادت اپنائی۔ ریاستی اختیار فقط وہیں تک محدود نہیں رہا۔ لوگوں کے زیر استعمال فونوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے ریاستی اداروں کو فی الفور علم ہوجاتا ہے کہ کونسے شخص نے کرونا کا ٹیسٹ کروایا ہے۔وہ اگر اس مرض کی زد میں آکر اسے لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرے تو ’’پکڑا‘‘ جاتا ہے۔ اس کا موبائل فون بتادیتا ہے کہ کرونا کا ٹیسٹ کہاں ہوا۔ اس ٹیسٹ کے مثبت آنے کے باوجود وہ کونسے افراد سے بدستورملتا رہا۔ ریاست کو میسر معلومات کی بنیاد پر بالآخر مریض سے رابطہ ہوتا ہے۔ اسے ہسپتال جانے یا اپنے ہی گھر میں گوشہ نشین ہوجانے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ریاستی Reachکے اس پھیلائو نے علم سیاسیات کے ماہرین کو یہ سوچنے پر اُکسایا ہے کہ دورِحاضر کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج یا بغاوت کی گنجائش اب موجود نہیں رہی۔عوام اب پنجرے میں بند ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔جن کی حرکت ہی نہیں ذہنوں میں ابھرتے خیالات بھی ریاستی اداروں کے علم میں آجاتے ہیں وہ بروقت اقدامات کے ذریعے احتجاجی تحاریک کا راستہ روک سکتے ہیں۔ریاستی دبدبہ اور کنٹرول غالباََ وہ قوتِ واختیار حاصل کرچکا ہے جسے کافکا جیسے تخلیقی ناول نگاروں نے Trialیعنی ’’مقدمہ‘‘ نامی ناول کے ذریعے بیان کیا تھا۔اس کے علاوہ ایک لکھاری جارج اورول بھی تھا۔ اس نے "1984"اور "Animal Farm"جیسے ناولوں کے ذریعے ہمیں ’’ہر لمحے پر نگاہ رکھنے‘‘ اور اسے قابو میں رکھنے والی ریاستی قوت کے امکانات کو اجاگر کیا تھا۔
کرونا کی وجہ سے کمزور ہونے کے بجائے بہت ہی طاقت ور ہوئے حکمرانوں کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کے نریندر مودی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔نوماہ قبل جب کرونا کا وائرس اس کے ملک میں پھیلنا شروع ہوا تو اس نے بغیر کسی تیاری کے یکدم کامل لاک ڈائون کا اعلان کردیا۔ شہروں کے مابین ہر نوعیت کی آمدورفت ناممکن بنادی گئی۔کاروبار بند ہوئے تو لاکھوں افراد بھارت کے بڑے شہروں سے اپنے آبائی قصبات تک جانے کے لئے پیدل سفر کرنا شروع ہوگئے۔کئی دنوں کی مسافت میں مصروف انسانی قافلوں کی وڈیوز دیکھیں تو قیامت صغریٰ کے برپا ہونے کا گماں ہوتا ہے۔بھوک اور پیاس سے نڈھال مسافروں نے وہ مناظر یاد دلائے جو 1947کے دوران ہوئی ہجرت کے دوران دیکھنے کو ملے تھے۔بھارتی معیشت بھی اس لاک ڈائون کی وجہ سے خوفناک حد تک تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ شرحِ نمو منفی سے نیچے سرکتے ہوئے اب کئی شعبوں میں 23فی صد تک گرچکی ہے۔
سخت گیر لاک ڈائون کی وجہ سے اپنی معیشت تباہ کرنے کے باوجود نریندر مودی مگر کرونا پر قابو نہ پاسکا۔آج سے دو دن قبل آئے اعدادوشمار کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 85ہزار سے زائد بھارتی اس مرض میں مبتلا ہوئے پائے گئے ہیں۔ وباء کی زد سے بدحال ہوئے ممالک کی فہرست میں وہ امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔
نریندرمودی کو کامل یقین تھا کہ اپنے ملک کے یوم آزادی یعنی 15اگست 2020کے روز تک اس کے طبی ماہرین برطانیہ کی شہرئہ آفاق آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے دریافت کئے فارمولے کے مطابق ایک ویکسین تیار کرلیں گے۔اس ویکسین کو آزمانے کے لئے جو وقت درکار تھا اسے نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے کئی ہسپتالوں کو حکم ہوا کہ اسے لوگوں کو لگانا شروع کردیں۔اس ملک کے دو بڑے دوا ساز اداروں نے مذکورہ ویکسین کے مؤثر ہونے کی تصدیق کا اعلان ہوئے بغیر اسے وسیع پیمانے پر مارکیٹ کے لئے تیار کرنا بھی شروع کردیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ مذکورہ ویکسین کے مؤثر ہونے کا اثبات مہیا ہوتے ہی اسے نہ صرف بھارتی شہریوں کو کرونا سے بچانے کے لئے استعمال کیا جائے گا بلکہ دیگر ممالک کو فروخت کرتے ہوئے بھاری بھر کم منافع کے علاوہ دادوتحسین بھی سمیٹی جائے گی۔ بھارت دُنیا کی نظر میں کرونا کے تدارک کو یقینی بنانے والی ویکسین کا ’’موجد‘‘ شمار ہوگا۔ایسا مگر ہونہیں پایا۔
دریں اثناء بھارت جو خودکو چین کا مقابلہ کرتی ’’سپرطاقت‘‘ بنانے کی لگن میں تھا اس برس کے مئی میں لداخ کی پہاڑیوں پر چینی افواج کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوتا بھی نظر آیا۔ کرونا کے مسلسل پھیلائو ،معیشت کی تنزلی اور چین کے ہاتھوں ملی ذلت کی وجہ سے علم سیاسیات کے کئی ماہرین کو یقین کی حد تک گماں ہوا کہ بھارت میں عوامی احتجاج کا لاوا پھوٹنے کو ہے۔اس کے نتیجے میں کم از کم مودی وزیر اعظم کے منصب پر برقرار نہیں رہ پائے گا۔
مذکورہ امکان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے بھارت کے ایک معتبر صحافتی ادارے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘نے چند ہفتے قبل ایک سروے کروایا ہے۔بھارت میں عوامی رائے کو جانچنے کے لئے سروے کی روایت سب سے پہلے اسی ادارے نے متعارف کروائی تھی۔یہ واقعہ 1984میں ہوا تھا۔ اس برس میں بھی پہلی بار بھارت گیا تھا۔اندراگاندھی قتل ہوچکی تھی۔نئے انتخاب کا اعلان ہوا۔راجیوگاندھی نے اپنی ماں کے خالی کئے منصب پر بیٹھنے کے لئے لوگوں سے ووٹ مانگے۔
دلی میں مقیم جید صحافیوں اور سیاسی تبصرہ نگاروں کی بے پناہ اکثریت بضد تھی کہ اندراگاندھی کے قتل نے اس کی جماعت کو حواس باختہ بنادیا ہے۔بھارت میں قیادت کا سنگین بحران نمودار ہوگیا ہے۔کسی بھی سیاسی لیڈر کا اتنا قدکاٹھ نہیں کہ اس بحران سے نبردآزماہوسکے۔راجیوگاندھی سیاست میں نووارد ہے۔ رائے دہندگان کا دل جیتنے میں ناکام رہے گا۔
میڈیا میں حاوی سوچ کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں دلی سے ٹرین میں بیٹھ کر کلکتہ روانہ ہوگیا۔جان بوجھ کر میں نے تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لیا۔ یوپی اور بہار کے کئی شہروں سے گزرتے ہوئے ٹرین کلکتہ پہنچی تو سفر کے دوران لوگوں سے گفتگو کے بعد میں نے طے کرلیا کہ راجیوگاندھی ’’ریکارڈ توڑ‘‘ اکثریت سے منتخب ہوگا۔میرا جائزہ اخبار میں چھپا تو ہمارے ریاستی اداروں کے لئے بھارت پر گہری نگاہ رکھنے والوں نے اسے دیوانے کی بڑقرار دیا۔ انتخاب سے تین روز قبل مگر ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کا سروے منظرِ عام پر آگیا۔اس سروے نے میرے جائزے کو اعدادوشمارکی مدد سے درست ثابت کردیا۔وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ والوں کی سروے والی مہارت متاثر کن حدوں کو چھورہی ہے۔
مودی کی مقبولیت کو جانچنے کے لئے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کی جانب سے حال ہی میں ہوئے سرو ے نے حیران کن دریافت یہ کی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اس وقت اپنی مقبولیت کی انتہا پر ہے۔80فی صد افراد نے لگی لپٹی رکھے بغیر اسے سراہا ہے۔ اس سروے کے نتائج نے مودی کے مخالفین اور ناقدین کو ششدر بنادیا ہے۔سروے کی بابت تضحیک آمیز جھکی پن دکھانے کے علاوہ مگر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔
شیکھرگپتا جیسے صحافیوں نے البتہ غیر جانبدار رپورٹروں والا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس سروے کے نتائج کو اپنی تحقیق کے ذریعے چیک کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوئے کہ ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے درست نتائج اخذ کئے۔ بھارتی عوام کی بھاری بھر کم اکثریت نہایت سنجیدگی سے یہ محسوس کرتی ہے کہ کرونا ’’بھگوان کا بھیجا‘‘ عذاب تھا۔مودی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔چین کے ہاتھوں ملی ذلت کا ذمہ دار کانگریس کو ٹھہرایا جارہا ہے جو عوام کی دانست میں بھارتی فوج کو طاقت ور بنانے پر توجہ نہ دے پائی۔
مودی کی مقبولیت کو جانچنے کے لئے جو سروے ہوا ہے اس کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اب کئی امریکی محققین کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ کرونا کے مقابلے میں قطعاََ ناکام رہنے کے باوجود ڈونلڈٹرمپ شاید نومبر کا صدارتی انتخاب بھی جیت جائے گا۔ یہ باور کیا جارہا ہے کہ مذہبی اور نسلی تعصب کی آگ بھڑکانے والے مودی اور ٹرمپ جیسے سیاست دانوں نے اپنے مداحین کے ’’اکثریتی فرقے‘‘ تیار کرلئے ہیں۔ یہ مداحین تلخ ترین معاشی حقائق کو مذہبی اور نسلی جنون میں قطعاََ نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ’’لیڈر‘‘ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ایسے جنون کا مؤثر ’’توڑ‘‘ کہیں بھی اُبھرتا نظر نہیں آرہا۔