قائداعظم محمد علی جناحؒ بیسویں صدی کی دنیائے سیاست کی عظیم ترین اور تاریخ ساز شخصیت تھی۔ آپ کی ذات میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اْتم پائی جاتی تھیں جو بلند پایا سیاسی لیڈرمیں ہونی چاہیں۔ آپ کی ولولہ انگیز قیادت نے برصغیر کے مسلمانوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد کر کیدو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک نئی اسلامی ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دکھایا اور ہمیں بطورِ قوم پاکستان کی منزل کے حصول کے بعد مزید بلندیوں ،کامیابیوں اور کامرانیوں کی منازل کو پانے کے لیے راہنمائی بھی فرمائی۔ہمیں موجودہ اور آنے والی نسلوں کو قائداعظم اور حصولِ پاکستان کے لیے اْن کی عظیم خدمات اور قربانیوں کو روشناس کرانا ہے تا کہ پاکستان اورمحسنِ پاکستان کی محبت ان کے دلوں میں اس طرح اْترے کہ اْن کی روحوں کوہمیشہ گرما تی رہے اور دلوں کو تڑپاتی رہے۔قائداعظم محمد علی جناح اعلی درجہ کے نہایت ذہین و فطین اور شفاف،خیالات و نظریات کے مالک تھے،منطق اور دلیل سیہر مسلہ کا حل نکالنا آپ ہی کی ذات کا خاصا تھا ۔سچائی وبہادری،ایمان و یقین، اتحاد و تنظیم ،عقل و دانش ،فہم و فراست،سیاسی بصیرت و مدبرانہ صلاحیت،دیانتداری و ایمانداری ،اصول پسندی و سلیقہ مندی ،اولوالعزمی و ثابت قدمی اورشائستگی ونفاست جیسی خوبیاں آپ کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ آپ کا شمار خوش پوش ترین شخصیات میں ہوتا تھا۔ آپ جس طرح تن کے اْجلے تھے اسی طرح من کے بھی اْجلے تھے۔ آپ نے پاکستان کے مقدمہ کو دنیا کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے سچائی کے سنہری اصول کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا اور بلآخر دنیا کو حق اور سچ کی فتح کے اصول کو سمجھا دیا۔جوال لال نہرو بھی آپ کی ذات اور اْس میں پائی جانے والی صفات سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے بقول نہرو کے’’ جناح تاریخ میں ایک نہایت ہی غیر معمولی شخصیت کے مالک ہیں ‘‘ مسو لینی نے کہا کہ ’’ جناح ایک تاریخی شخصیت تھی جو صدیوں کے بعد پیداہوتی ہے ‘‘ علامہ اقبالؒ نے قائداعظم محمد علی جناح کی عظمت کو یوں بیان کیا
ہزاروں سال نر گس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انگریز جب برصغیر کیاقتدار پر قابض ہوئے چونکہ انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اس لیے یہ ڈر ہمہ وقت اْن کے دل میں گھرکر چکاتھاکہ مسلمانوں کو جب بھی موقع ملا ہم سے اقتدار واپس لینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لہذا اس خطرے کے پیشِ نظر انہوں نے ہندوں کو اپنی طاقت بنانے کے لیے انہیں نوازنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں پسماندہ رکھنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔گویا ہندوں کونوازنے کی پالیسی اور مسلمانوں کو محروم رکھنے کی پالیسی تشکیل دی گی ۔ہندوں کے پاس اپنی سیاسی جماعت کانگرس موجود تھی جبکہ مسلمانانِ برصغیر کے پاس کو ئی اپنا سیاسی پلیٹ فارم نہ تھا جس کے ذریعے اْن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں و ناانصافیوںکے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرتے۔ آخر کار30دسمبر1909کو ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرس کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر برصغیر پاک و ہند کے ممتاز مسلمان رہنماوں کاخصوصی اجلاس نواب وقار الملک کی زیرِ صدارت منعقد ہوا ۔نواب سلیم اللہ ا?ف ڈھاکہ نے مسلم نمائندہ جماعت تشکیل دینے کی قرارداد پیش کی۔ تمام رہنماوں نے قرار داد کی حمایت کی یوں آل انڈیا مسلم لیگ معرضِ وجود میں آ گئی۔
جب مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح کیہاتھ میں آئی تو آپ کی صلاحیتوں نے تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھْونکی اور دو قومی نظریہ میں ایک نئی تڑپ پیدا کر کے پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کا پیدائشی حق قرار دیا ۔ آپ کی ولولہ انگیز قیادت کی بدولت حصولِ پاکستان کے سفر میں جو ولولہ اور جوش پیدا ہوا وہ دیدنی تھا۔ آپ نے جس شان سے حصولِ پاکستان کا مقدمہ لڑا اْس کے سامنے ہندو اور انگریز بھی بے بس اور لا جواب ہوگئے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی پوری زندگی اپنے بدن سے روح نکلتے تک حصولِ پاکستان اور استحکامِ پاکستان کے لیے واقف کر رکھی تھی۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی اور اْن کے لیے ایک الگ وطن کے حصول کے لیے جو انتھک محنت کی وہ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ اس پر لارڈ پیتھک لارنس نے آپ کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ’’گاندھی قاتل کے ہاتھوں مرا اور جناح کو پاکستان کی لگن نے مار دیا ‘‘ دیگر بہت سے مسلم اور غیر مسلم مفکر ، دانشور او ر سیاسی رہنما بھی آپ کی ذات میں جواعلیٰ درجے کی صفات پائی جاتی تھیں دل سے معترف تھے مسز لکشمی پنڈت جو کہ جوال لال نیرو کی بہن تھی نے قائداعظم کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا’’ اگر مسلم لیگ کے پاس100گاندھی اور 200آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس ایک محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی بھی تقسیم نہ ہوتا‘‘ ۔ دشمن پاکستان کے قیام کو ‘دیوانے کا خواب ’ قرار دیتے تھے،اْن کو ہمارے عظیم قائد نے اللہ پاک کے کرم ، بزرگوں کی نظر اور اپنی دن رات کی تگ و دوسے دیوانے کے خواب کو اْلٹ کر کے اْس کی حقیقی تعبیر کر کے دکھا دی اور اْن کو اپنی آنکھوں سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کو معرضِ وجود میں آتے دکھا دیا۔اگر آج بھی بطور ِ قوم ہم عہد کر لیں کہ ہم اپنے پیارے وطن میں بابائے قوم کی تعلیمات اور اْن کے سنہری اصولوں پر صِدقِ دل سے عمل پیرا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کی ہم اپنے تمام مسائل پر قابو نہ پا سکیں اور دنیا میں ایک عظیم قوم ابھر کر سامنے نہ آ سکیں۔ وہ قومیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں رکھتی جو اپنے محسنین،قائدین اور مفکرین کی خدمات اورکارناموں کو فراموش کر دیتی ہیں۔ آج 11 ستمبر ہے آج کے دن ہمارے پیارے قائداپنی قوم اور اپنے پیارے پاکستان کو الوداع کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے قائد کی روح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا واحد اوربہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر بطور ِ قوم اْن مقاصد کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیں جن مقاصد کی خاطر ہمارے محبوب قائد نے پاکستان بنایا تھا۔