بانی پاکستانؒ کا فرمان ہے کہ ہر مسلمان کو دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہے(27اگست1947) …بروز پیر، 25 دسمبر1876 کو کراچی میں لوگ محکومی اورمحرومی کی رنگدار چادر اوڑھے گہری نیند سو رہے تھے۔چاند اپنی دلکش،حسین چاندنی سے پھولوں میں میٹھاس بھر رہا تھا۔ایک حلیم طبیعت ماں جی کی گود کو قدرت نے بیٹے کے خزانے سے بھر دیا۔ ماں جی کے بدن کے زرے زرے سے مسرت پھوٹنے لگی۔اب!صبر وشکر ادا کرتے ہوئے دماغ کی تہہ کو الٹ پلٹ کر بیٹے کا نام تلاش کرنے لگی۔ غور و فکر کے تسلط میں بولی! بیٹے کا نام محمد علی رکھوں گی۔نبی آخرالزمان ؐ کی تعلیمات پر سچے پکے دلِ سے عمل کرنے کی تعلیم و تربیت دوں گی۔جب میرا بیٹا محمد علی ،سچا ئی اور سراطِ مستقیم پر چلے گا۔تو دماغ کو چین ،دل کو تسلی اور بدن کو راحت نصیب ہو گی۔شفیق ماں جی کا پورا بدن مسرت کی وادی میں چلا گیا۔میرا بیٹا ،میرا لاڈلا،میرا شہزادہ،میری جان محمد علی کچھ دیر بار بار پکارتی رہی۔ یکدم دماغ کے صحن میں جناح کا لفظ گرا ۔جناح کے معنی پرندے کے پر ہیں۔پرندے کے پر کبھی میلے نہیں ہوتے مگر بلندیوں پر لے جاتے ہوئے فطرت کے قریب لے جاتے ہیں۔ پرندے کھلے سمندر ،بلند پہاڑوں،وسیع صحراوں اور پھیلے ہوئے جنگلوں کو تحقیق و تخلیق کیلئے عبور کرتے ہیں۔پرندوں نے ہمیشہ میٹھے لذیز پھلوں کے بیج کو اٹھا یااور ویران بنجر زمین میں گرا کر زمین کے سپرد کر تے ہوئے ویران بنجر زمین کو سر سبز شاداب بنایا،خوراک کو لذیز اور آسان بنایا۔پرندے اڑتے ہوئے بدن کو سورج کی تپش کے حوالے کرتے ہوئے بدن کو بیماریوں سے بچا تے۔ شفیق ماں جی جب اولاد کو سنوار اور سلجھا رہی ہوتی ہے، تو اولاد پورے معاشرے ،پھر پورے ملک کو سنوارتے ہیں۔پرنور پیشانی والی ماں جی نے ٹھنڈی سانس لی اور بولی!بیٹے کا نام محمد علی جناح ہو گا تو دائمی مسرت والی حسین وادی میں چلی جاوں گی۔
چین ،راحت کی ہوائیں بدن سے ٹکراتی رہیں۔دن گزرتے گے۔جوں جوں بیٹا بڑا صحت مند ہوتا گیا،محنت لگن تربیت سے نکھرتا گیا، پیاری ماں جی کی صحت پہلے سے بہتر ہوتی گی۔اب بیٹے محمد علی جناح کو سنوارنے ،عقل و شعور سے نوازنے کیلے دن رات ،صبح شام،محنت لگن خلوص،پیار سے جدوجہد ہونے لگیں۔عقلی قوتوں کو بڑھانے کیلے مقدس کتابوں کے الفاظ کا شربت پلایا جانے لگا۔ دھیان دینے والی ماں اپنی اولاد کواچھی تعلیم و تربیت کرنے کی وجہ سے چھپی مصیبتوں، برائیوں سے بہت دور لے جاتی ہیں،جہاں ترقی خوشحالی ہوا کرتی ہے۔ماں جی نے فرمایا،بیٹا جی غور و فکر کرو،ہمیشہ یاد رکھنا ،زندگی بھر ہر لمحہ علم کے حصول پر دھیان دئیے کرامتیاز پانا ،پھر سچے پکے طریقے سے علم ہی کے مطابق عمل کرنا کیونکہ،علم بغیر عمل بے کا ر ہے۔بیٹا جی علم پر عمل بغیر خلوص بے فائدہ ہوتا ہے۔علم پر عمل کرنا اورعمل میں خلوص بھرنے سے مرد قلندر بنتے ہیں۔آپ نے ہمیشہ صبر و تحمل سے چلنا ہے۔اصول پرستی دیانتداری سے رہنا ہے۔یاد رکھنا!۔بے لوث وعدہ ایفائی سے خوداری ،استقامت کو تقویت ملتی ہے۔ حسن تدبر اور اعلیٰ کردار میں اضافہ ہوتا ہے۔ پیاری ماں جی کی شفقت و پیار و خلوص کی آمیزش سے بیٹے کے دماغ کی تہہ میں بصیرت کی تہہ جمتی رہی اور صلاحیتوں کی کونپلیں پھوٹتی رہی۔چھ سال کی عمر میں مدرسے میں داخل کرایا گیا۔
گھر میں محمد علی جناح کے انگلستا ن جانے کی تیاریاںشروع ہوئی تو والدہ ماجدہ کو پریشانی فکر نے گھیر لیا۔محمد علی جناح کو اتنی محنت ،لگن،پیار شفقت سے پڑھایا، وہاں جا کر گوری میم سے شادی نہ کر لے چناچہ سب کی مرضی سے امر جی سے نکاح ہو گیا۔مگر رخصتی نہیں ہوئی۔جنوری 1893 کو اعلیٰ تعلیم کیلے انگلستان روانہ ہو گے۔وہاں پہنچ کر حالات کا غور و فکر اور سوچ بچا ر سے جائزہ لیا اور وکالت کیلے داخلہ لینے کی اجازت گھر سے طلب کی۔اجازت ملنے پر 5 جولائی1893کو داخلہ مل گیا۔تعلیم جاری رہی۔1896 کے وسط میں آپ لندن سے گھر واپس آئے۔ 1906 میں محمد علی جناح نے سیاسی زندگی کا آغاز فرمایا تومسلمانوں کی بدحالی ،جہالت،محکومی کو دیکھ کر سخت بے چین پریشان ہوتے۔ آپ فرماتے مسلمان جب تک اسوہ حسنہ پر چلتے رہے۔
کامیاب خوشحال ،عزت ،غیرت سے زندگی بسر کر تے رہے۔جب احکاماتِ رسول ؐپر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ناکامی اور کالے اندھیروں میں ٹکریں مارتے رہے ۔اپنوں کو زخمی ،قتل کرتے رہے۔جب بھی مسلمانوں کو اپنے عزائم اور مقاصد میں ناکامی ہوتی ہے۔تومسلمانوں ہی کر دغابازی ہوتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر میں شاید ہیں کہ کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ جو اپنے مذہب میں بھی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔جنابِ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا،خیالی دنیا سے نکل آئیں۔اپنے دماغ ایسے پروگراموں کیلے وقف کر دیں،جن سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے بھائیوں کی حالت بہتر ہو سکے۔صرف اسی صورت میں ہم مضبوط اور طاقتور ہو سکیں گے کیونکہ ہر بڑے آدمی کو بنانے کیلے بڑے خلوص، انتہائی محنت اور آگے بڑھنے کی جستجوں ہوتی ہے۔سی لیے قائد نے فرمایا!ہم جتنی ذیادہ تکلیفیںسہنا اور قربانی دینا سیکھیں گے،اتنی ہی ذیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے ،جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جا تا ہے۔