محمد علی جناح جب بے یارو مددگاراور منتشر مسلمانوں کی رہنمائی اور دستگیری کے لئے آگے بڑھے تو کسی کو گمان تک نہ تھا کہ وہ پوری قوم کے قائد بننے والے ہیںاور ان کے ہاتھوں سے ایک نئی اسلامی مملکت قائم ہونے والی ہے۔ مطالبہ پاکستان نے ملتِ اسلامیہ کو حیاتِ نو اور عظمتِ رفتہ کی باز آفرینی کا پیغام دیا اور اپنی منزل کو پانے کے لئے قوم نے سالارِ اعظم اور قائداعظم محمد علی جناح کی اعلیٰ قیادت میں سعی پہیم اور جہد مسلسل کو مشعل راہ بنا کر غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا اور مملکت خداداد پاکستان حقیقت بن کر اُبھری۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قوم کو خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا "قیام پاکستان جس کے لئے ہم گزشتہ دس برس سے مسلسل کوشش کر رہے ہیں اب خدا کے فضل و کرم سے ایک حقیقت بن کر سامنے آ چکا ہے۔ لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور ہم اپنی اسلامی روشنی اور ثقافت کے مطابق نشوونما پا سکیں اور اسلام کے عدلِ حکمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں"۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بے مقصد زندگی کسی بھی لحاظ سے مفید تصور نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات قوموں کے سامنے بھی اتنی ہی درست ہے جتنی افراد کے معاملے میں۔اس اہم نقطہ کو سمجھانے کے لئے قائداعظم خاص طور پر زور دیا کرتے تھے۔دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا نمودار ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہی ممکن ہوا۔ خدائے بزرگ و برتر نے اس اہم کام کا عملی پہلو قائداعظم کو اس اور اس کی تصوری شکل کی تشکیل علامہ ڈاکٹر اقبال کو سونپی۔قائد اعظم نے میدانِ کارزار میں اُتر کر اس سرزمین کو فتح نہیں کیا بلکہ اُن کے ہتھیار تدبر، استقلال اور ثابت قدمی پر مشتمل تھے اور ان کے مقابلے میں برطانوی حکومت کے تجربہ کار کارندے اور ایسے جہاندیدہ ہندوستانی سیاستدان تھے جو جوڑ توڑ کے فن میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ وہ سب کے سب ناکام رہے اللہ تعالیٰ نے محمد علی جناح کو عزت دی۔ دسمبر 1938ء میں قائداعظم نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہیں اور ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک براعظم ہے۔ اس دو قومی نظریہ نے ایک عام ہیجان پیدا کر دیا اور 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں مسلمانوں کی قومی جدوجہدکا رُخ واضح طور پر متعین کر دیا گیا۔ پنڈٹ جواہر لال نہرو نے جب یہ اعلان کیا کہ ہندوستان مین صرف دو طاقتیں ہیں ایک کانگریس اور دوسری برطانوی حکومت تو قائد اعظم نے اس کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا طاقتیں دو نہیں بلکہ تین ہیں اور یہ تیسری طاقت مسلمان ہیں۔ آگے چل کر واقعات اور حالات نے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مصیبتیں جھیلیں اور نامساعد حالات کا سامنا کیا مگر یاس و حرماں کا شکار ہو کر کبھی ہمت نہیں ہاری ۔وہ پرامن اور صلح جو شخصیت کے حامل تھے اس لئے بغیر کسی تشددکے برصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار ریاست پاکستان کے قیام کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔قائداعظم نے پاکستان کو ایک فسوں حقیقت بنانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دینے سے گریز نہیں کیا اور اپنی منزل مقصد پا لینے کے چند ماہ بعد انہوں نے جان عزیز جان آفریں کے حوالے کر دی تھی۔ پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلاء تھے۔ مگر معالج سے وعدہ لے رکھا تھا کہ اُن کی علالت کو ظاہر نہ کیا جائے۔ دراصل اُن کو خدشہ تھا اگر وائسرائے کو علم ہو گیا تو وہ تقسیمِ ہند کے اہم معاملے کو التواء میں ڈال دے گا اور ہندوستانی نہ صرف برصغیر کو اکھنڈ بھارت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ اُن کی مسلمانوں پر بالا دستی بھی قائم ہو جائے گی۔قائداعظم کا خدشہ بعد میں درست ہوا تھا جب اس کا اعتراف مائونٹ بیٹن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اُن کو قائداعظم کی علالت کا علم ہو جاتا تو وہ آزادی ہند کے منظور شدہ ایکٹ پر عمل پیرا ہونے کے فرض کو قائداعظم کی وفات تک التواء میں ڈال دیتے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد ا عظم کی صحت لگاتار گرتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ وہ مکمل آرام کریں مگر قومی تعمیر و نو سخت محنت کا تقاضا کر رہی تھی۔ آپ باوجود صحت کی خرابی کے قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی لیتے رہے۔ اُن کی صحت کی دیکھ بھال کے لئے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔ بستر علالت پر بھی اہم ملکی معاملات کی فائلیں ضرور دیکھتے تھے۔ آخری دنوں میں آکسیجن پر گزارا چلتا رہا۔ آپ تین اہم اُمور کے لئے بے حد فکر مند تھے۔ پہلے مہاجرین کی آباد کاری، دوسرا کشمیر کا مسئلہ اور تیسرا آئین کی تیاری۔ جب صحت بے حد گر گئی تو ان کو کراچی لایا گیا اور 11 ستمبر 1948ء کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔