قائداعظم جنت کے دریچوں سے۔۔۔۔

Sep 11, 2021

 ملک محمد شفیق
malikmuhammadshafiq55@gmail.com
ستمبرکامہینہ 1948 کا سال اور نوزائیدہ پاکستان کی یتیمی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے فتنوں کا لامتناعی سلسلہ،بانی پاکستان کی وفات 11ستمبر کو ان حالات میں ہوتی ہے کہ بیمار قائد کو زیارت سے کراچی منتقل کیا جاتا ہے ضعیف،نزار اوربیمارقائد جس نے خیبر سے راس کماری تک مسلمانوں کے دلوں پر حکومت کی اور بیسویں صدی کا معجزہ قیام پاکستان کی صورت میں کردکھایا ،ان کی ایمبولینس ماڑی پورائیر پورٹ اور گورنرجنرل ہاؤس کے درمیان راستے میں خراب ہو جاتی ہے ، جسے  ٹھیک کرنے کی کوشش کے باوجود  یہ چلنے کے قابل نہ ہوئی۔ شدید حبس اور گرمی میں  بانیء پاکستان  پسینے میں شرابور ، نقاہت اورنیم بے ہوشی میں پڑے رہے۔ان واقعات سے تاریخ کے طالبعلم کے ذہن میں بے شمار سوال اٹھنے لگتے ہیں سب سے بڑا سوال کہ قائد کی بیماری کی شدت میں کراچی واپسی پر کیوں  کابینہ کا کوئی بھی فرد یا ذمہ دار قائد کے استقبال کے لیئے ایئر پورٹ پر استقبال کے لئے موجود نہیں تھا؟ ملک کی سب سے اعلی،قابل عزت شخصیت جس کی بیماری انتہائی شدت کی تھی ان کیلئے کیوں کھٹارہ ایمبولینس استعمال کی گئی اور متبادل انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟وائرلیس کے ذریعے متبادل انتظام کرنے کی بجائے کیوں راستے میں ایمبولینس کو ٹھیک کرنے میں وقت ضائع کیا گیا؟۔قائداعظم  کی اس دنیا سے رخصت  کے ایام  انتہائی غیر معمولی  تھے جوایک قوم کو یتیم کر گئے اس یتیمی کے گھائو کتنے گہرے تھے،کتنے دور رس نتائج کے حامل تھے جب تاریخ کا طالب علم اس کے متعلق سوچتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے، اسے اس بات کاشدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس جان محفل کے چلے جانے کے بعد جو بھی  مسند اقتدار پر بیٹھا دن بدن ان سے کمتر ہی تھا۔بعد میں آنے والے تو اس کے بتائے ہوئے اصولوں کی پاسداری بھی کرنے کے قابل نہیں تھے،قائد نے مستقبل کے پاکستان کے لئے ایمان،اتحاد،تنظیم کے سنہری اصول دئیے تھے،ایمان تو متروکہ جائیدادوں کی بندربانٹ کھا گئی بے ایمانی کی آکاش بیل دن بدن بڑھتی چلی گئی اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ قائد کی تصویر والے نوٹ کو رشوت کے لئے  استعمال کرتے وقت کوگوں کا ضمیر بھی بوجھل نہیں ہوتا۔آپ کی رحلت کے بعد لسانی اور علاقائی فتنوں نے سر اٹھانا شروع کردیا ان فتنوں کے پس پردہ اہل ہوس کی سازشیں کارفرما تھیں سیاسی مہاشوں نے حصول اقتدارکے لئے ان ہی ہتھیاروں سے جسد ملی کو لہولہان کرنا شروع کر دیا،اردو جو کہ برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ زبان کہلاتی تھی اور جسے قائد نے پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا سب سے پہلے نشانہ بنی مشرقی پاکستان میں اردو بنگلہ تنازعہ کھڑا کرکے ملکی اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا جسکے نتائج دور رس اور ملک کے لئے مہلک ثابت ہوئے، انجام کار یہ کہ قائداعظم کے پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا۔ یہ تو قائد کے رہنما اصولوں سے سلوک ہے جو قوم نے کیا، قائد کی وراثت مسلم لیگ کے ساتھ جو سلوک خود مسلم لیگیوں نے کیا وہ تاریخ پاکستان کا عبرتناک باب ہے کبھی اسے ریپبلکن پارٹی کا تتمہ بنایا گیا تو کبھی جگتو فرنٹ بنا کر رسوا کیا گیا اور کبھی فوجی آمریتوں کے  کے لئے اسے تعاون کا ذریعہ بنایا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اس خود ساختہ اقتدار کوالیکشن میں چیلنج کیا تو ابن الوقتوں اور طاقت کے پجاریوں نے ان پر وہ گھناؤنے الزامات لگائے کہ ایک دوست ملک کے سفیر بھی سن کر آبدیدہ ہو گئے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو قوم کی ماں اور بانی پاکستان سے متعلق بھی احترام سے عاری ہیں۔
یہ پاکستان برصغیر جنوبی ایشیا کے لئے بالعموم اور مسلمانان عالم کے لئے بالخصوص ایک امید ہے ہمیں اپنی حماقتوں اور بے تدبیریوں کی وجہ سے انھیں مایوس نہیں کرنا اس مملکت پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سلامتی کے لئے قائداعظم کی لگن اورستمبر 1965 کے غازیوں اور شہیدوں کے جذبے کو زندہ رکھنا ہے پاکستان نام ہے ایک عزم کا ایک جنوں کا اور ایک روشن مستقبل کا۔ آج کے دن ہم سب نے اپنے قائد کے افکار کی روشنی میںاس بات کا عہد کرنا ہے کہ اس مملکت کے مستقبل کے لئے  پوری دیانتداری اور تندہی سے اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

مزیدخبریں