پروفیسر عبدالحق
بانیء پاکستان محمد علی جناح بلاشبہ قائداعظمؒ اور بابائے قوم ہیں۔ جنہوں نے برصغیر کی مایوس اور کچلی ہوئی قوم کو نا صرف اپنی جد جہد سے غیر ملکیوں کی غلامی سے نجات دلائی بلکہ اس خطے کی تاریخ کے ساتھ اس کا جغرافیہ بھی بدل دیا ۔یہ قائد کی خلوص نیت کا ثمر تھا کہ قدرت نے پاکستان کی شکل میں انعام دیا اور وہ اس نوزائیدہ مملکت کے سربراہ بنے۔ 14اگست 1947ء تا 11ستمبر 1948ء ایک سال ستائیس دن کا مختصر عرصہ ان کے لئے ایک چیلنج تھا۔ حالات کی بے سرو سامانی کے مقابل قائداعظمؒ جو زندگی کے 69سال میں داخل ہو چکے تھے اور جسمانی صحت بھی بالعموم زیادہ تسلی بخش نہ تھی اس کے باوجود ان کا صدق ویقین قدرت پر اعتماد اور لگن وہ طاقت تھی جس نے حالات پر قابو پالیا۔
بہ حیثیت سربراہ مملکت پاکستان قائداعظمؒ کی زندگی کا ہر لمحہ ایک روشن مثال ہے جس سے جہد مسلسل امید ویقین نظم وضبط اور ایثار وخلوص کا سبق ملتا ہے۔ تقسیم ہند کے3جون 1947کے اعلان کے بعد مسلم لیگ کے جماعتی فیصلے کی رو سے 10جولائی 1947ء کوبرطانوی پارلیمنٹ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر قائداعظمؒ کا نام منظور کیا تو عالم اسلام سے ہندوستان میں مسلمانوں کو مبارک باد پیش کی گئی۔ لوگ جوق درجوق قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پرپہنچے اور اپنی مسرت کا اظہار کیا۔
14اگست 1947ء کو اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان ایک آزاد مملکت کے روپ میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا یہ جمعۃ المبارک کا دن تھا پاکستان کے قیام اور ایک آزاد وخودمختار مسلم ریاست کے معرض وجود میں آنے کا اعلان رات کو ٹھیک بارہ بجے کے بعد لاہور، کراچی اور پشاور کے ریڈیو سٹیشنوں سے ہوا۔ 14اگست کی شب قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم نے اپنی قوم کے نام اس نشریہ میں کہا تھا۔
میں انتہائی مسرت وشادمانی اورقلبی احساسات کے ساتھ آج آپ کی خدمت میں تہنیت پیش کرتا ہوں۔ 14اگست ہماری آزادی وخودمختاری اور پاکستان کے وجود میں آنے کا دن ہے۔ آج کا دن مسلم قوم کی سربرآوری کادن ہے جس نے اپنا وطن حاصل کرنے کے لئے گزشتہ کئی برسوں میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔آج کا جنگ آزادی کے ان دلیرمجاہدوں کی یاد سے معمور ہے جنہوں نے پاکستان کو حقیقت بنانے کے لئے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جانیں تک نثار کردیں میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ہمیشہ ان کا ممنون احسان رہے گا۔قائداعظمؒ نے مزید فرمایا:’’آئیے ہم آج کے دن اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کاشکر بجا لائیں اور دعا کریں کہ وہ ہمیں ان کا اہل ثابت ہونے کی توفیق عطا فرمائے ‘‘۔
یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ کانگریس نے تقسیم ملک کے فیصلے کو نیک نیتی اور خلوص ودیانت سے قبول نہ کیا تھا چنانچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی نئی مملکت کے خلاف بھارتی غم وغصے کا اظہار اورسازشوں کا آغاز ہوگیا ۔ آزادی کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ہندواکثریت کے تمام علاقے مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بن گئے ان کی جائیدادیں لوٹ لی گئیں یا نذر آتش کردی گئیں، نہتے مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا۔ فوج کی تقسیم میں بے اصولی کے ساتھ ریزروبنک آف انڈیا کے اثاثوں کی تقسیم میں بھی ناانصافی کی گئی۔ ان سب کارروائیوں کامقصد صرف اور صرف پاکستان کے لئے مالی و انتظامی مشکلات میں اضافہ تھا۔تقسیم ہند کے فسادات کے نتیجے میں سب سے زیادہ پنجاب، دہلی اور وسطی ہند کے صوبے متاثر ہوئے تھے۔ مشرقی پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ جس کے باعث لاہور اور اس کے گردو نواح کا علاقہ مہاجرین کا دباؤ تھا اور نت نئے مسائل جنم لے رہے تھے۔ایک فکر مند ،درد دل رکھنے والے قائد اپنی نا تواں قویٰ کے باوجود اس نازک صورتحال سے مکمل باخبر رہنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے دست راست اور وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو لاہور بھیجا۔ انہوں نے سرحدی علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد قائداعظمؒ کو جو رپورٹ پیش کی اس نے قائد کا دل دہلا دیا اور اتنے مضطرب ہوئے کہ ستمبر کے آخری ہفتے لاہور آپہنچے۔ بحیثیت سربراہ مملکت یہ ان کا پہلا دورہ تھا وہ مہاجرین کے کیمپوں میں گئے ان کی آبادکاری کے کاموں کا خود جائزہ لیا اور مسائل حل کرنے کی بھی ہدایات دیں۔ اس دوران انہوں نے سرکاری ملازمین اور مختلف وفود سے ملاقات کی اور انہیں تعمیری انداز اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ لاہور میں چند روز قیام کے دوران تھکا دینے والی مصروفیات اور پیہیم غم واندوہ کی کیفیت نے ان کے اعصاب پر بہت اثر ڈالا مگر ان کے پائے ثبات میں ہرگز لغزش نہ آئی۔ بلکہ وہ پہلے سے سے بھی زیادہ وقار اور مردانگی سے قوم کو امیدویقین کا درست دیتے ہوئے کراچی لوٹ گئے جہاں سرکاری مصروفیات اور زیرالتواء ان کے منتظرتھے ۔
دارالحکومت میں چند روز قیام کے بعد انہیں لاہور پھر آنا پڑا۔ اس بار ان کی آمد کا سبب کشمیر تھا جہاںڈوگرہ راجہ کی مسلمان دشمنی اور بھارتی حکومت سے سازباز کے خلاف پونچھ کے مسلمانوں نے سردار ابراہیم کی قیادت میں عارضی حکومت تشکیل دے کر آزاد کشمیر سے الحاق کا اعلان کردیا۔ اس پر جموں اور اردگرد کے علاقوں کے ہندو مشتعل ہوگئے اور انتقامی کارروائیاں کرنے لگے۔ ڈوگرہ راجہ نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قبائلیوں کی کشمیر میں مداخلت کا بہانہ بنا کر ہندوستان سے باقاعدہ الحاق کا اعلان کردیا۔اس قطعی بے اصولی اور غیر اخلاقی اقدام پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کے ساتھ پُرزور مذمت کی۔ قائداعظم فوری لاہور پہنچے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کشمیرکی بگڑتی ہوئی صورت حال سے آگاہ کیا اور اس ضمن میں مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان کے کمانڈر انچیف اور صوبہ سرحد کے گورنر کو بھی طلب کیا، جبکہ وزیراعظم پہلے ہی سے لاہور متمکن تھے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق پنڈت جواہرلعل نہرو کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہمراہ 29 اکتوبر کو لاہور پہنچنا تھا جو خرابی صحت کا بہانہ بنا کر کانفریس کو نظر انداز کر گئے۔ چنانچہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مذاکرات کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔ کشمیر کے ضمن میں قائداعظم کی طلب کردہ دوسری ملاقات اسی روز انعقاد پذیر ہوئی جس میں قائداعظم سمیت پنجاب اور سرحد کے گورنر صاحبان کے ساتھ اس وقت کے انگریز پاکستا نی کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے شرکت کی۔ قائداعظم نے کشمیر میں ہندوؤں جارحیت اوربھارتی تسلط سے روکنے کے لئے فوجی ایکشن ضروری سمجھا۔ مگر انگریز کمانڈر انچیف نے دفاعی وسائل کی قلت اور متحدہ کمانڈ انچیف کے اختیارات کی آڑ میں اس اقدام سے صاف انکار کردیا۔ یہی وہ ایام تھے جب قائداعظم کو انگریز فوجی سربراہ جنرل گریسی کی حکم عدولی پرسخت صدمہ پہنچا اور وہ بیمار ہوگئے اور تقریباً 12روز تک گورنر ہاؤس لاہور میں بیمار پڑے رہے۔جونہی قائداعظم کی طبیعت سنبھلی ان کی زیر صدارت لاہورمیںایک جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا۔ 30 اکتوبر 1947 کو یونیورسٹی گراؤنڈ میں اس جلسہ عام میں لاہور کے شہریوں سے خطاب میں قائداعظم نے قوم کو صبروتلقین کی۔اسی شام ریڈیو پاکستان لاہور سے انہوں نے قوم سے خطاب فرمایا۔ جس کا ایک ایک لفظ ان کی انسان دوستی دردمندی صدق وصفا اور آئین پسندی کا مظہر تھا۔ لاہور میں اپنی علالت کے باوجود قائداعظم نے انتہائی مصروف دن گزارے۔ لیکن اس سارے عمل میں وہ کس قدر مضمحل اور نڈھال تھے اس کا اندازہ ان کے سیکرٹری کرنل برنی کے الفاظ سے ہوتا ہے جنہوں نے لاہور سے واپسی پر کراچی میں قائداعظم کو دیکھا ،وہ لکھتے ہیں۔ آج انہیں دیکھ کر سخت صدمہ ہوا پانچ ہفتے قبل جب وہ یہاں سے روانہ ہوئے تھے توساٹھ سال کے لگ بھگ معلوم ہوتے تھے لیکن آج ان کی عمر اسی برس سے اوپر معلوم ہوتی ہے۔
قائداعظم کے لاہور میں طویل اور غیر متوقع قیام کے باعث کراچی میں مرکزی حکومت کے بہت سے کام اور بعض اہم امور اور توجہ طلب مسائل ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔ پاکستان تعمیر کے راستے پر گامزن تھا اور اس کا سربراہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ان خوابوں کی تعبیر کھوج رہا تھا جو اس کی قوم آنکھوں میں سجائے ہوئے تھی۔ نئی مملکت کی تعمیر میں انتظامیہ کے کلیدی کردار کے پیش نظر قائداعظم نے 11دسمبر 1947ء کو اعلیٰ افسران کااجلاس طلب کیا اور نئے حالات کے مطابق انہیں اپنے انداز واطوار بدلنے کی ہدایت کی اور انہیں سمجھایا کہ اب وہ کسی غیر ملک کے تنخواہ دار نہیں بلکہ ایک آزاد قوم کے ملازم اور عوام کے خادم ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے فرمایا ہمارے شاندار نصب العین کا تقاضا ہے کام، کام اور صرف کام، اور پھر قائد محتر م اسی جذبے اور تندہی کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری ایام تک نوآزاد مملکت کے مسائل نمٹانے میں مصروف رہے،حتیٰ کہ وہ افسوسناک گھڑی بھی آن پہنچی جب وہ اس قوم کو سوگوار چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔