کراچی (کامرس رپورٹر )پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل (پی آئی بی ٹی) نے سال 2020-21کے دوران قومی خزانے میں محصولات کی مد میں 5.8ارب روپے جمع کرائے جس میں 2.27ڈالر فی ٹن کے حساب سے 3.7ارب روپے کی رائلٹی جبکہ دیگر ڈیوٹیز اور محصولات کی مد میں جمع کرائے جانے والے 2.1ارب روپے شامل ہیں۔پی آئی بی ٹی کے چیف فنانشل آفیسر ارسلان افتخار خان نے کہا ہے کہ پی آئی بی ٹی ایک مکمل طور پر مکینائز بلک کارگو ہینڈلنگ ٹرمینل ہے جو بلٹ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر (بی او ٹی) کی بنیاد پر بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے۔ پی آئی بی ٹی قومی نوعیت کا اسٹیٹ آف دی آرٹ انفرااسٹرکچر پراجیکٹ ہے جو اپریل 2017 میں قیام کے بعد سے بلک کارگو ہینڈلنگ کی بین الاقوامی معیار کی خدمات فراہم کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات افسوناک ہے کہ قومی خزانے میں خطیر رقوم جمع کرانے اور ماحولیاتی تحفظ میں اہم کردار ادا کرنیو الے اس قومی نوعیت کے پراجیکٹ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ارسلان افتخار خان نے کہا کہ بعض حلقوں کی جانب سے پی آئی بی ٹی کی ہینڈلنگ کی گنجائش پر سوال اٹھائے جارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس طرز کے انفرااسٹرکچر منصوبے آئندہ کئی سال کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کیے جاتے ہیں اور ان کی استعداد میں ضرورت پڑنے پر اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے تاہم موجودہ صورتحال کا تعلق گنجائش سے نہیں بلکہ درآمدات کی بدانتظامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمینل کی کارگو ہینڈلنگ کی صلاحیت 12ملین ٹن سالانہ جبکہ گزشتہ سال ٹرمینل نے 10.07ملین ٹن کارگو ہینڈل کیا۔انہوں نے کہا کہ جنوری 2021سے اپریل 2021تک محض 2.65ملین ٹن کوئلہ ہینڈل کیا گیا اور باقی گنجائش بروئے کار نہیں لائی جاسکی اسی طرح جولائی2020سے اگست 2020کے دوران بھی 1.4ملین ٹن کارگو کی ہینڈلنگ کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمینل کے پاس کوئلے کی ملکی طلب کے لحاظ سے ہینڈلنگ کی کافی گنجائش اب بھی موجود ہے اور گزشتہ سال کے دوران متعدد مرتبہ ماہانہ ایک ملین ٹن کوئلہ ہینڈل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر فریٹ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت گلوبل فریٹ ریٹ 36ہزار ڈالر یومیہ تک پہنچ چکا ہے جبکہ کوئلے کی قیمت 150ڈالر فی ٹن کی بلند ترین سطح کو چھور رہی ہے۔ کوئلے کی قیمت میں متوقع اضافہ کے پیش نظر درآمد کنندگان ہنگامی بنیادوں پر کوئلہ کی خریداری کے سودے کررہے ہیں دوسری جانب امپورٹرز کی نااہلی جیسے عوامل مل کر پی آئی بی ٹی پر اژدہام کا سبب بن رہے ہیں تاہم غیرضروری طور پر ٹرمینل کی گنجائش اور صلاحیت پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ سپریم کورٹ نے CRP No. Nil-K/2018 in HRC No. 29999-S/2018 پر 2جنوری 2020کو اپنے احکامات میں پی آئی بی ٹی کو ہدایت کی ہے کہ اگر کوئلے کی امپورٹ کو منظم طریقے سے ریگولیٹ کیا جارہا ہے اور کوئلہ لانے والے جہازوں کے درمیان مناسب وقفہ برقرار ہے تو کوئلے کی ان لوڈنگ میں تاخیر کو کم کیا جائے۔ پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل اپنی ویب سائٹ کے زریعے جہازوں کی آمد کا شیڈول جاری کرتی ہے تاکہ کوئلے کے درآمد کنندگان اپنی درآمد کا شیڈول موثر طریقے سے ترتیب دے سکیں تاہم پی آئی بی ٹی کی متواتر درخواستوں کے باوجد بعض درآمد کنندگان اپنی درآمد کے پلان پر موثر طریقے سے عمل درآمد میں ناکام ہیں۔ترجمان نے کہا کہ اگر درآمد کنندگان اپنی امپورٹ کو شیڈول کے مطابق احسن طریقے سے مکمل کریں تو ٹرمینل پر اضافی دباؤ نہیں پڑے گا جس کا اندازہ گزشتہ سال 10ملین ٹن کارگو کی ہینڈلنگ سے کیا جاسکتا ہے جو ٹرمینل کی مکمل گنجائش سے بھی 2ملین ٹن کم رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئلے کی ہینڈلنگ کی ذمہ داری صرف پی آئی بی ٹی کو دیے جانے کی باتیں بھی بے بنیاد ہیں کیونکہ گوادر کی بندرگاہ بھی کوئلے کی ہینڈلنگ کے لیے دستیاب ہے۔