برطانوی ہند کے آسمان سیاست پہ کئی دہائیوں تک چھائے رہنے والے محمد علی جناح مذاکرات کے بادشاہ،کرشماتی شخصیت کے مالک، انتہائی تیز طراز سیاستدان اور قدامت و جدت کا حسین ترین امتزاج تھے ان کی سب سی بڑی وجہ شہرت اصول پرستی تھی، میدان سیاست و وکالت کا یہ عظیم شہسوار کبھی اپنے اصول پہ سمجھوتہ کرنے پہ تیار ہوا نہ ہی خود کیلیے بنائے گئے اصولوں سے انحراف کیا ۔راقم کا تعلق بھی چونکہ پیشہ وکالت سے ہے لہذا آج جناح کے لیگل کیریئر پہ قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کراچی میں پیدا ہونے والے محمد علی جناح کا تعلق کاٹھیا واڑ گجرات کے ایک متمول کاروباری گھرانے سے تھا ان کے والد پونجا جناح کاروبار کے سلسلے میں کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ممبئی اور کراچی میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پونجا جناح کے ایک انگریز کاروباری شریک سر فریڈرک کرافٹ نے نوجوان محمد علی جناح کو اپنی ملکیتی گراھم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں ملازمت کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا اور لندن روانہ ہوگئے ان کے والد کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ کاروبار کے متعلقہ امور پہ تعلیم مکمل کر کے ان کا ہاتھ بٹائیں۔ لیکن چند ماہ بعد ہی وہ اس ملازمت کو خیرباد کہہ کر قانون کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو گئے اور لنکن ان (Lincoln's inn) میں داخلہ لے لیا قائد اعظم کا دعویٰ تھا کہ Lincoln's inn کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کے داخلی دروازے پر دنیا کے عظیم قانون سازوں کے نام بشمول محمد صلی اللہ علیہ وسلم درج تھے یہ ان کی نبی کریم سے اوائل عمری سے ہی عقیدت کی عظیم مثال تھی۔صرف بیس سال کی عمر میں قانون کی تعلیم مکمل کر کے وہ برصغیر کے سب سے کم عمر بیریسٹر بن گئے اور ممبئی میں بطور پہلے مسلمان بیریسٹر اپنے لیگل کئیریر کا آغاز کیا اپنے آبائی شہر کراچی کو چھوڑ کر ممبئی پریکٹس کی بڑی وجہ ممبئی کا انڈین مالیاتی و کاروباری مرکز ہونا تھا۔ ہر وکیل کی طرح ابتدائی سالوں میں مشکلات کا شکار ہوئے لیکن صبر کا دامن نہ چھوڑا مستقل مزاجی اور محنت کے بل بوتے پر جلد اچھے وکیلوں میں شمار ہونے لگے قائد اعظم پہ تھیسس لکھنے والی ایک بھارتی مصنفہ کے مطابق اس دور کے وکیل انگریزی علوم پہ زیادہ مہارت نہ رکھتے تھے اکثر وکلاء تعزیرات ہند اور تجارتی تنازعات کے قوانین کے متعلق زیادہ نہیں جانتے تھے جس کے باعث موکل کا موقف پیش کرنے میں مشکلات کا شکار رہتے تھے ان حالات میں برطانوی بیرسٹرز کی فرمز کی مناپلی قائم تھی۔ جناح کی انگریزی پہ دسترس نے ان کا کیریئر بنانے میں بہت مدد کی وہ ان ابتدائی وکلاءمیں شامل ہیں جنھوں نے برطانوی لائ فرمز کی برتری ختم کی۔جناح کے وکالت کے اوائل ایام میں سر فیروز شا مہتا نے ان کے سینئر کے طور پہ بڑی شفقت کی اور انھیں اپنی لائبریری تک رسائی دی اس دوران کچھ عرصہ بطور مجسٹریٹ فرائض سر انجام دیے ان کے مجسٹریسی کے دنوں کا واقع مشہور کتاب "جناح پاکستان اور اسلامی شناخت" میں درج ہے کہ جب انھیں مجسٹریٹ کی مستقل ملازمت کی آفر ہوئی تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پندرہ سو روپیہ ماہانہ پہ کام نہیں کر سکتا کیونکہ میں اتنے روپے بطور وکیل روز کمانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں ان دنوں یہ بہت بڑی رقم تھی۔ لیکن اس درویش صفت انسان کا پاکستان سے اخلاص دیکھیے کہ بطور پہلے گورنر جنرل اپنے لیے صرف ایک روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ قائد کو بطور وکیل اصل شہرت مشہور مقدمہ کاو¿ کس کیس (caucas case) سے ملی جس میں آپ اپنے استاد فیروزشامہتا کے وکیل تھے یہ الیکشن کے متعلقہ مقدمہ تھا جس نے
ان کے کئیریر کو پہیے لگا دیے۔ان کی پرکشش شخصیت، منفرد اندازِ تکلم اور جاندار دلائل نے انھیں شہرت کی
بلندیوں پر پہنچا دیا فرینک موئرس کے بقول"جناح ان چند وکلائ میں سے تھے جو سننے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں کوئی شخص اپنے کیس پیش کرنے میں ان سے زیادہ ماہر نہ تھا اگر کم ترین کوشش سے زیادہ نتائج مہارت کی انتہا ہے تو یقین کریں جناح اس فن کے بڑے فنکار تھے وہ کیس کے اہم نکات کی وضاحت کیلیے دستاویزات کی ہڈیوں تک جانا پسند کرتے تھے ان کا طریقہ بہت ماہرانہ تھا،وہ جب بولتے تھے تو کمرہ عدالت میں سناٹا طاری ہو جاتا تھا، جونئیر وکیل گردنیں اٹھا اٹھا کر اس قد آور اور خوش لباس شخصیت کے ایک ایک لفظ کو سنتے ، سینئر وکلاء بھی باریک بینی سے ان کو سنتے یہی حال جج کا ہوتا"۔قائد کی جاندار اور بلاخوف وکالت کا ایک اور واقعہ 1954 میں شائع ہونے کتاب creator of Pakistan میں ان کے ساتھ کام کرنے والے بیریسٹر کے حوالے سے منقول ہے کہ دوران بحث مجسٹریٹ نے ان کو ٹوک کر کہا کہ مسٹر جناح آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کسی ٹھرڈ کلاس مجسٹریٹ کے سامنے دلائل نہیں دے رہے۔
جناح نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ مائی لارڈ مجھے بھی اجازت دی جیے کہ میں آپ کو متنبہ کر سکوں کہ آپ بھی کسی ٹھرڈ کلاس وکیل کے دلائل نہیں سن رہے۔ یہ برجستہ اور برمحل جواب مستقبل میں ان کی سیاست کے جارحانہ لیکن انتہائی محتاط رویے کی عکاسی ثابت ہونے والا تھا۔ جناح اس دوران ممبئی سے باہر بلکہ پورے بھارت میں مقدمے لڑ رہے تھے ان کی شہرت دوام دور دور تک پھیلی ہوئی تھی میری نظر میں جو اہم ترین مقدمہ انھوں نے جیتا وہ ریاست بھوپال والا مقدمہ تھا،نواب آف بھوپال نے اپنی جائیداد کی آمدن کا ایک حصہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ریاست سے باہر جانے والے طالب علموں کیلیے وقف کر رکھا تھا نواب صاحب کی وفات کے بعد ورثاء نے یہ وقف ختم کرنے کا مقدمہ دائر کر دیا ان کی طرف سے آلہ باد بار کے سٹار لائر رائے تیج بہادر سپرو نے تین دن تک بحث کی نظائر و دلائل کے انبار لگا دیے چوتھے دن جناح کی باری آئی تو ان کے پاس نہ بھاری بھرکم فائل تھی نہ سینکڑوں دستاویزات کی نقول وہ اپنے مخصوص انداز سے روسٹرم پہ آئے اور صرف ایک جملہ کہا کہ مائی لارڈ یہ مقدمہ بلحاظ مالیت آپ کی اختیار سماعت میں نہیں آتا اس کے ساتھ ہی متعلقہ قانون (statute) پڑھ کر سنایا جس کے مطابق ایک لاکھ مالیت سے زائد مالیت کی جائیداد کے مقدمات حکمران خود سنے گا۔ یہ statute موجود تو تھا لیکن اس پہ عملدرآمد بلکل نہیں ہو رہا تھا کہ کیونکہ اس پہ وقت کی گرد پڑ چکی تھی لہذا کبھی پیش ہی نہ کیا گیا تھا اس مقدمے کی جیت کو جناح نے عوام کی جیت قرار دیا کیونکہ اس مقدمے نے بطور نظیر برصغیر کی عدالتوں میں قانون کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ تو جناح کی بطور وکیل چند کامیابیوں کا تذکرہ ہے ان کا کیریئر دیوانی، فوجداری، تجارتی، وراثتی ہر قسم کے مقدمات سے مزین ہے۔لیکن ان تمام مقدمات سے بلند اور بالاتر مقدمہ جسے جناح کی زندگی کا آخری بڑا مقدمہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے وہ مسلمانان ہند کیلیے پاکستان کی صورت میں علیحدہ ملک کا قیام ہے جس کے متعلق وہ خود فرما گئے ہیں کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہنے کیلیے بنا ہے۔ اللہ پاک کروڑوں مسلمانوں کو ایک ایسا عظیم وطن دینے پر جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکتے ہیں، کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے اور حوض کوثر پر پاک پیغمبر کے ہاتھوں جام کوثر نصیب فرمائے آمین
جناحؒ بطور قانون دان
Sep 11, 2022