دنیا قرض نہیں دینا چاہتی ، سعودی وزیر نے کہا ہم سے بھی سستا ڈیزل بیچ رہے ہو : وزیر خزانہ 

لاہور (کامرس رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت جون میں 59 روپے فی یونٹ بجلی بنا رہی تھی۔ لاہور چیمبر آف کامرس میں صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم بہتری کی طرف جارہے ہیں، ہم نے بجلی کی کپیسٹی ڈبل کر دی۔ 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ نواز شریف دور میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھائی گئی۔ پہلے 12 ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت موجود تھی، بجلی کا سرکولرڈیٹ 2500 ارب روپے ہے۔ گیس کا سرکولرڈیٹ 1500 ارب روپے ہے، حکومت  جون میں 59 روپے فی یونٹ بجلی بنا رہی تھی۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جامشورو پاور پلانٹ چلاکر بجلی پیدا کی گئی۔ فرنس آئل سے بجلی بنانا پڑی، ایک دن شدید گرمی میں 31 ہزار میگاواٹ کی ڈیمانڈ تھی، آئی ایم ایف پروگرام میں نہ جاتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا، اس وقت ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، دنیا اب آپ کو قرض نہیں دیتی، دینا بھی نہیں چاہتی، فرنس آئل اورکوئلے کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا، فرنس آئل اورکوئلے کی قیمت میں اضافے سے بجلی کی قیمت بڑھی۔2010ء سے گردشی قرضوں کا مسئلہ چلا آرہا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سیلاب سے لاکھوں لوگ متاثرہوئے، سندھ کی پوری کاٹن خراب ہو گئی ہے، چھ ہزار 500 کلو میٹر سڑک خراب، 286 پل ٹوٹ گئے ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں دس لاکھ جانور مر گئے۔ مفتاح اسماعیل سیلاب متاثرین کی حالت زار بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔انہوں نے کہا میرے بیٹے کی چپس کی فیکٹری ہے اس کی بھی اب ایل سی نہیں کھلے گی، اپنے بوس کے بیٹوں کی فیکٹریوں پر ٹیکس بڑھایا ہے، میری اپنی فیکٹری کا بھی ٹیکس بڑھا ہے۔ بہت سے لوگوں  نے کہا حکومت نہیں لینی چاہیے، ہم نے سوچا نگران سیٹ اپ آئے گا تو آئی ایم ایف تعاون نہیں کرے گا۔ اس وقت ملک کوبہت سے مسائل کا سامنا ہے،آئی ایم ایف پروگرام میں نہ جاتے توملک، بنک کرپٹ ہو جاتا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ شہباز شریف کو باگ ڈور ملی تو پاکستان کے پاس ساڑھے 10 ارب ڈالر تھے۔ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اپریل میں 3 ارب ڈالر ادائیگیوں میں مزید کم ہوگئے۔ آئی ایم ایف نگران حکومت سے بات نہیں کرتی اس لیے حکومت میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ مزید رقم ادھار لینے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم خیالی دنیا میں نہیں رہ سکتے، حکومت میں آنے سے پہلے ہمیں مسائل کا پتہ تھا، ہم پی ٹی آئی کی طرح یہ نہیں کہیں گے ہمیں ملکی حالات معلوم نہیں تھے، 30 ارب کی ایکسپورٹ کرنے والے ملک کو 80ارب ڈالرکی درآمدات نہیں کرنی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے فیول سبسڈی ختم کرو، سعودی وزیر نے کہا آپ تو ہم سے سستا ڈیزل بیچ رہے ہو، آج  ڈیزل کم آ رہا ہے، لوگوں نے ذخیرہ کر لیا ہے، مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ ایکسپورٹ کی ہر ایل سی کھلے گی، وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں ایک نہیں 10 سیالکوٹ چاہئیں، تب ایکسپورٹ بڑھے گی، مجھے احساس ہے بجلی کے بل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، جرمنی اور فرانس میں بجلی کا یونٹ 250 روپے کا ہے، ہم جو بجلی کا یونٹ بنا رہے تھے اس پر 69 روپے لاگت آرہی تھی،درجہ حرارت ایک ڈگری بڑھنے سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی طلب بڑھتی ہے۔ جامشورو پلانٹ میں جو بجلی بنتی ہے اس پر 59 روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے۔ پنجاب سے بجلی کا 80 فیصد ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان مزید ایل این جی نہیں لے سکتا اس وقت بہت مہنگی ہو گی، ہم نے پٹرول اور ڈیزل پر 660 ارب روپے کی سبسڈی دی لیکن اب پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی دینا بند کر دی ہے۔ ڈیزل پر اس وقت 7.5 روپے، پٹرول پر38 روپے ٹیکس ہے، وزیر اعظم کے دو بیٹوں کی شوگر مل پر 10 فیصد ٹیکس لگایا، شاباش ملنی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ڈالر پر آج بھی بہت پریشر ہے، ابھی امپورٹ کی ایل سی کھولنے کے حق میں نہیں ہوں، میں نے اپنے بیٹے کی مل کیلئے بھی ایل سی کھولنے کی اجازت نہیں دی، ستمبر میں امپورٹ کھولنا چاہتے تھے لیکن سیلاب آ گیا ہے، سیلاب سے ابھی تک 18.5 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔مزید برآں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کے باعث آئندہ دو تین سال پاکستان کی جی ڈی پی دبائو کا شکار رہے گی ، ملک کی کاروباری برادری  سیلاب زدگان کی بڑھ چڑھ کر مدد کرے اور  اپنی سالانہ آمدن کا ایک فیصد سیلاب زدگان کی مدد کیلئے وزیراعظم ریلیف فنڈ میں دیں ،این ایف سی کمیشن تشکیل پا چکا ہے لیکن ابھی کام کا آغاز نہیں کیا۔ جب وزیر اعظم شہباز شریف اس کا اجلاس طلب کریں گے تو ہم کام شروع کر دیں گے،پاسکو کے ذریعے چاروں صوبوں کی گندم کی ضروریات پوری کی جائیں گی تاکہ آٹے کے نرخوں میں کمی ہو سکے ،ایکسپورٹرز کو سو فیصد مراعات دینے کا فیصلہ کیا ہے ان کی ہر قسم کی ایل سی کھلے گی تاہم امپورٹ کی ایل سی پر فی الحال اس پر پابندی عائد ہے،آٹو موبیل، ہوم اپلائنسز اور موبائل سیکٹر کو ان کے کوٹے کا پچاس فیصد امپورٹ کرنے کی اجازت دی ہے ،خام پراسسڈ چکن پر 17فیصدجی ایس ٹی بر قرار رہے گا جو چیز پیکنگ میں چلی جائے گی اس پر جی ایس ٹی لازمی وصول کیا جائے گا۔چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور گورنر سٹیٹ بنک کو ہدایت کی ہے وہ کاروباری ماحول کی بہتری کے لیے لاہور چیمبر کی تجاویز کو زیر غور لائیں اور جلد ہی ملاقاتیں بھی کریں۔ وہ گزشتہ روز لاہور چیمبر میں اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ صدر لاہور چیمبر میاں نعمان کبیر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جبکہ سینئر نائب صدر میاں رحمن عزیز چن اور نائب صدر حارث عتیق نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ  نواز حکومت نے ٹیکس ٹو جی پی کی شرح 11.1فیصد پر چھوڑی تھی جو پی ٹی آئی حکومت میں کم ہوا، اس وقت یہ ساڑھے نو فیصد کے قریب ہے، اتنے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی اور ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگر ان دونوں کی شرح پندرہ فیصد ہوجائے تو حکومت کو امداد مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جامشورو پاور پلانٹ سے ایک یونٹ بجلی 59روپے کی بن رہی ہے جو صارفین تک پہنچنے پر 78روپے کی پڑتی ہے۔ صارفین کو فیول اور ایل این جی کی کاسٹ ٹرانسفر کی ہے۔جو سیلاب سے نقصان ہوا وہ حکومت پاکستان برداشت نہیں کر سکتی 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں مطلب 55 لاکھ خاندان ہیں۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں نعمان کبیر نے کہا کہ چیپٹر84اور 85کے تحت مشینری کی درآمد کے لیے سٹیٹ بنک سے پیشگی منظور کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کمرشل بنکوں کی جانب سے شپنگ دستاویزات رکھنے کی وجہ سے کاروبار متاثر ہورہے ہیں اور غیرضروری ڈیمرج چارجز بھی برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، یہ مسئلہ حل کیا جائے۔  انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ کو فاٹا، پاٹا کی صنعتوں کی جانب سے ٹیکس استثنی کی سہولت کے غلط استعمال کا مسئلہ حل کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے بھاری ٹیکس چوری ہوتی ہے۔انہوں نے بنکوں کی جانب سے انٹربنک ڈالر ریٹ سے دس تا پندرہ روپے زائد وصول کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر کو وزارت خزانہ اور اس کے ماتحت اداروں میں نمائندگی دی جائے۔ افریقہ،  وسطی ایشیا، ایران اور روس جیسی مارکیٹوں کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بنکنگ چینلز کے قیام اور بارٹر ٹریڈ پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مارک اپ کی موجودہ شرح پندرہ فیصد بہت زیادہ ہے جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپٹما وفد کو تعاون کی یقین دہانی، مزید براں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپٹما کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت برآمدات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہر ممکن سپورٹ کرے گی۔ وہ گزشتہ روز اپٹما اراکین سے بات چیت کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور چیئرمین ایف بی آر بھی ان کے ہمراہ تھے جبکہ گورنر سٹیٹ بنک نے کراچی سے آن لائن شریک ہوئے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت آئندہ موسم سرما میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں کئی ایک اقدامات حکومت کے زیر غور ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی ٹیکسٹائل ملوں کے لئے قیمت کے فرق کو اگلے ہفتے ختم کر دیا جائے گا۔ انہوں نے گونر سٹیٹ بنک سے کہا کہ وہ اگلے ہفتے اپٹما کا دورہ کر کے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو قرضوں کی فراہمی سے متعلق شکایات کا ازالہ کریں۔ اس موقع پر اپٹما کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر گوہر اعجاز، چیئرمین اپٹما عبد الرحیم ناصر اور چیئرمین نارتھ زون حامد زمان نے انڈسٹری کو درپیش مسائل سے وفاقی وزیر کو آگاہی دی۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے وزیر خزانہ کی اپیل پر اپٹما کی جانب سے ایک سو کروڑ روپے کے راشن بیگ سیلاب زدگان کے لئے حکومت کو دینے کا وعدہ بھی کیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...