روس کا طربیہ 

دلچسپ خبر ہے ۔کینیا کے سرکاری ٹی وی نے ملکہ برطانیہ الزبتھ کی وفات کی خبر کچھ ان الفاظ کے ساتھ چلائی کہ ’’ملکہ برطانیہ وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کے بعد شہزادہ چارلس نئی ملکہ ہونگے۔‘‘ یہ ’’ٹکر‘‘ کافی وقت سکرین کی زینت بنا رہا۔ پھر کسی کے توجہ دلانے پر یا انتظامیہ کے ازخود نوٹس پر اس کی درستگی کر دی گئی کہ شہزادہ چارلس نئے بادشاہ ہونگے۔
دیکھا جائے تو ’’ٹکر‘‘ نویس کا بھی قصور نہیں۔ اس وقت روئے ارض پر جتنے بھی انسان آباد ہیں‘ ان کی 90 فیصد سے بھی زیادہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہوش سنبھالتے ہی ملکہ الزبتھ کا ذکر سنا اور ملکہ الزبتھ کا ذکر سنتے سنتے ہی بڑے ہو گئے۔ برطانیہ اور ملکہ الزبتھ کے نام لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ لاشعوری طورپر ذہن میں یہی بات جم گئی کہ برطانیہ میں ’’ملکہ‘‘ ہوتی ہے۔ چنانچہ الزبتھ کی وفات کے بعد چارلس نے ہی ملکہ ہونا تھا۔
بہرحال‘ ملکہ کی وفات کی خبر جس نے بھی سنی فوراً یقین کر لیا۔ البتہ شہزادہ چارلس کو یقین آتے آتے کافی وقت لگ گیا۔ 75 سالہ چارلس کم سے کم نصف صدی سے اس خبر کے انتظار میں تھے اور اب تو انہوں نے انتظار کرنا بھی چھوڑ دیا تھا اور اس خیال میں گم ہوگئے تھے کہ میری تدفین بھی ’’ملکہ‘‘ ہی کے ہاتھوں ہوگی۔ انتظار ترک کرنے کے بعد جب اچانک وفات کی خبر آئی تو ظاہرہے اتنی جلدی کیسے یقین کرتا کہ نصف صدی کے انتظار کے بعد آ خر ’’نئی ملکہ‘‘ معاف کیجئے گا‘ بادشاہ بن گئے ہیں۔ خدا ان کی بادشاہت قائم رکھے۔ بھلے ہی نام کی ہے‘ ہے تو بادشاہت۔
…………
ایک اور خبر بھی کافی دلچسپ ہے۔ بلکہ خبر نہیں‘ خبر کا پس منظر دلچسپ ہے۔ خبر یہ ہے کہ امریکہ نے ایران پر کئی پابندیاں لگا دی ہیں۔ اس جرم پر کہ اس نے یوکرائن کی جنگ میں مدد کیلئے روس کو ڈرون طیاروں کی کھیپ کیوں دی۔
یہ ڈرون طیارے دو ہفتے پہلے روس روانہ کئے گئے تھے اور اس کے بعد یہ خبر بھی آئی تھی کہ سب کے سب مطلب براری سے قاصر تھے۔ یعنی ناکارہ نکلے۔ روس کی کوئی مدد نہیں کر سکے۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے۔ روس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا ایران کو پابندیوں کی صورت میں بارہ آنے کا نقصان ہو گیا۔
یہ خبر کا ایک مزیدار پہلو ہے۔ دوسرا مزیدار پہلو یہ ہے کہ ایران سے یہ ڈرون طیارے خود روس نے مانگے تھے۔ جب یہ خبر آئی تو ذہن میں وہ لطیفہ گونج گیا جو دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا ہے اور بہت مشہور ہے۔ وہی جس میں لام بندی کے دوران برطانوی ٹیم ایک محلے میں گئی اور ایک خواجہ سرا کے در پر دستک دیدی۔ ٹیم نے خواجہ سرا کو بتایا کہ ہٹلر سے جنگ کیلئے برطانیہ کو تمہاری مدد کی ضرورت آن پڑی ہے۔ خواجہ سرا نے جواب دیا کہ اگر نوبت یہاںتک آپہنچی ہے تو بہتر ہے کہ ہٹلر سے جنگ نہ کرو‘ صلح کر لو۔
روس ابھی تک خود کو ’’سپر پاور‘‘ منوانے کی دھن میں ہے‘ لیکن حالت یہ ہے کہ اس کے ’’فائٹر‘‘ جیٹ یوکرائن میں ناکام رہے۔ اپنے ڈرون طیارے اس کے ہیں نہیں اور ایران سے مانگنے پر مجبور ہو گیا۔ در آں حالیکہ یمن کی جنگ میں سعودی اہداف پر چلائے جانے والے 95 فیصد ڈرون طیارے کبھی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے۔
سب سے زیادہ کارگر ڈرون اسرائیل کے ہیں‘ پھر ترکی کے اور اس کے بعد امریکہ کے۔ حیران کن بات ہے لیکن سچ ہے۔ آذربائیجان کی جنگ میں ترکی کے ڈرون طیاروں نے آرمینیا اور روس کی ا فواج کی‘ ’’تباہی‘‘ پھیر دی تھی۔ اب ترکی نے یوکرائن کو ڈرون کی بھاری سپلائی دی ہے اور بدلے میں گندم سے بھرے بحری جہازوں کی رسد پائی ہے۔ یہ جہاز یوکرائن کی بندرگاہوں سے بحیرہ اسود کو پار کرکے ترکی کے ساحل پر پہنچتے ہیں۔
بحیرہ اسود تقریباً بند سمندر Land Locked ہے صرف ایک جگہ سے سمندری نہر باسفورس نام کی اسے بحیرہ روم سے ملاتی ہے۔ بحیرہ روم خود بھی تقریباً بند سمندر ہے جسے جبر الٹر کی تنگ سی نہر (آبنائے) بحراوقیانوس سے ملاتی ہے۔ بحیرہ اسود پر یوکرائن اور روس دونوںکے ساحل ہیں اور یہیں کریمیا کا وہ جزیرہ نما ہے جسے روس نے یوکرائن سے چھین لیا تھا۔ پھر یوکرائن کے مزید علاقے چھیننے پر وہ جنگ شروع ہوئی جس میں یوکرائن نے مثالی مزاحمت کی اور تازہ ترین مصدقہ رپورٹیں ہیں کہ روس کے 95 ہزار فوجی ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ 35 ہزار ہلاک‘ باقی زخمی۔
روس اس حد تک مجبور ہوا کہ پچھلے مہینے اس نے شام سے اپنا ایس 300 (S-300) نظام بھی واپس منگوا لیا۔ میزائل ڈیفنس کا یہ نظام روس نے شامی حریت پسندوں سے مقابلے کیلئے شامی حکومت کو دیا تھا اور یہ شمال مغربی شام میں ’’مصیاف‘‘ کے مقام پر نصب تھا۔ اس سے پہلے کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی ملک نے ہتھیار یا ہتھیاروں کا نظام کسی ملک کو دیکر واپس لے لیا ہو۔ یہ روس کی ’’بے کسی‘‘ والی کیفیت کا مظاہرہ ہے۔ 
میزائلوں کا یہ پورا نظام بحیرہ روم اور پھر بحیرہ اسود کے راستے روس لے جایا گیا۔ 
روس نے شام میں اپنی موجودگی بہت کم کر دی ہے جس کے بعد ترکی ایران اوراسرائیل تینوں کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل نے پچھلے ہفتے حلب میں جو شام کا سب سے بڑا شہرہے۔ تین بار بمباری کی اور ایئرپورٹ تباہ کر دیا۔ ایران عراق کے بری راستے سے شام میں فوجی اور میزائل بھیجتا رہا ہے‘ لیکن ان تمام زمینی راستوں پر اسرائیل نے سینکڑوں بار بمباری کرکے رسد کے قافلے برباد کر دیئے جس پر ایران نے حلب کا فضائی راستہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
روس کے ’’شام بدر‘‘ ہو جانے کے بعد پہلی بار امریکہ نے بھی شامی فوجی اہداف پر حملے کئے۔ امریکہ نے شام میں داعش پر لاتعداد مرتبہ بمباری کی‘ لیکن شامی فوج پر یہ اس کا پہلا حملہ تھا۔ یوکرائن کی جنگ روس ہار رہا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی شام سے بھی اپنا ہاتھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ واہ رہے سپر پاور کی سپریم پاور۔

ای پیپر دی نیشن