پاکستان بننے سے قبل منٹو پارک لاہور (آج کا مینارِ پاکستان) کے ایک جلسہ عام میں قائداعظم انگریزی میں تقریر کررہے تھے تو بی بی سی ریڈیو کے نمائندے نے ایک دھوتی پہنے اَن پڑھ آدمی سے سوال کیا کہ تم نے قائداعظم کی تقریر سنی ہے۔ اس آدمی نے کہا کہ ہاں سنی ہے۔ ریڈیو کے نمائندے نے کہا کہ وہ تو انگریزی میں تھی۔ اس آدمی نے کہا کہ مجھے زبان کا تو پتہ نہیں‘ لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں‘ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ ایک دن گاندھی نے قائداعظم کو متاثر کرنے کیلئے کہا کہ رات کو میرے کمرے میں سانپ گھس آیا تو میں نے اسے دیکھا اور اس نے مجھے دیکھا اور وہ واپس چلا گیا۔ اس پر قائداعظم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہم پیشہ ہونے کا کچھ تو لحاظ ہوتا ہے۔ قائداعظم ایک دفعہ کسی عدالت میں اپنے مخصوص لہجے میں دلائل دے رہے تھے کہ انگریز جج نے طنز کی کہ مسٹر جناح تم کیا کہہ رہے ہو۔ تمہاری باتیں میرے ایک کان سے گھستی ہیں اور دوسرے سے نکل جاتی ہیں۔ قائداعظم نے برجستہ جواب دیا کہ جناب دونوں کانوں کے درمیان کوئی چیز ہو توآپ کو میری بات سمجھ آئے۔ کرنل الٰہی بخش بتاتے ہیں کہ زیارت میں سردی بڑی تھی۔ ہم نے موٹی جرابیں قائداعظم کیلئے خریدیں تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئی ہیں۔ بتایا گیا کہ دو روپے کی بازار سے خریدی ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں اتنی مہنگی جرابیں افورڈ نہیں کر سکتا انہیں واپس کر دو۔ قائداعظم نے بیماری سے نڈھال ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ نئے باورچی رکھے گئے اس دن کھانا انہیں پسند آیا اور انہوں نے دو تین نوالے کھائے۔ قائداعظم نے پوچھا کہ آج کھانا کس نے بنایا ہے۔ بتایا گیا کہ کپورتھلہ والے باورچی بلوائے گئے ہیں۔ یہ کھانا انہوں نے بنایا ہے۔ قائداعظم نے اسی وقت چیک کاٹا اور حکم دیا کہ انہیں واپس بھیجو۔ قائداعظم کراچی میں گاڑی میں کسی جگہ جا رہے تھے اور انکے آگے آگے سارجنٹ تھا۔ ریلوے کا پھاٹک بند ہو گیا۔ سارجنٹ اس پھاٹک والے کے پاس گیا اور اسے سخت سست کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ قائداعظم جا رہے ہیں۔ قائداعظم اسی وقت گاڑی سے باہر آئے اور سارجنٹ کی گوشمالی کی کہ اس نے ٹھیک کیا ہے۔ اگر قائداعظم قانون کی پاسداری نہیں کرے گا تو قوم کیسے کرے گی۔بیماری کے دوران ایک نرس نے آپ کی بہت خدمت کی۔ ایک دن آپ نے خوش ہو کر اس سے پوچھا کہ بیٹی تم نے میری بہت خدمت کی ہے۔ میں آپ کیلئے کیاکر سکتا ہوں تو نرس نے کہا کہ جناب میرا تعلق پنجاب سے ہے اور میں یہاں اکیلی رہتی ہوں۔ میری تبدیلی پنجاب میں کروا دیں۔ قائداعظم نے اس پر کہا کہ میں کسی کی وزارت میں مداخلت نہیں کر سکتا کوئی اور کام بتاﺅ۔ایک دن برطانیہ کا سفیر قائداعظم سے ملنے آیا۔ اس نے کہا کہ ہمارے بادشاہ کا بھائی کراچی سے گزر رہا ہے۔ آپ ذرا اس کا استقبال کرلیں۔ قائداعظم نے کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ایک وعدہ کرو کہ کل کو میرا بھائی لندن گیا تو آپ کا بادشاہ ائیرپورٹ پر میرے بھائی کا استقبال کرے گا۔ سفیر اپنا سا منہ لے کر واپس چلا گیا۔ باتیں تو بیشمار ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے آخری بات سن لیں۔ قائداعظم نے شادی ایک پارسی لڑکی سے کی اور خدا تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی عطا کی۔ بیوی تو آن کی فوت ہو گئی لیکن ان کے سسرالیوں کو شاید رنجش تھی کہ ان کی بیٹی نے ایک مسلمان سے شادی کیوںکی۔ جب بیٹی جوان ہوئی تو اپنے باپ کو ملنے آئی اور خوش ہوتے ہوئے بتایا کہ پاپا میں شادی کر رہی ہوں۔ قائداعظم نے خوش ہو کر پوچھا کہ وہ کون خوش قسمت ہے۔ جب بیٹی نے نام بتایا تو آپ لال پیلے ہو گئے کہ بیٹی آپ ایک مسلمان کی بیٹی ہو۔ جاﺅ ذرا دو چار دن سوچ کر بتانا۔ بیٹی کا ذہن ننھیال نے پکا کیا ہوا تھا۔ بیٹی نے کہا کہ میں نے وہیں شادی کرنی ہے۔ بیٹی کا مصمم ارادہ دیکھ کر قائداعظم اٹھے۔ بیٹی کا ماتھا چوما اور کہا کہ ” Child My Luck Good۔“یہ میری اور تمہاری آخری ملاقات ہے۔ خیر پاکستان بن گیا۔ ایڈمرل احسن نے ایک مرتبہ انٹرویو میں بتایا کہ قائداعظم کراچی میں بطور گورنر جنرل اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ بیٹی ملنے آگئیں۔ اس وقت قائداعظم اور بیٹی کے درمیان صرف ایک دروازہ حائل تھا۔ اس لیڈر کا آہنی ارادہ دیکھیں۔ ایڈمرل احسن کو کہا کہ اس سے پوچھو کہ گورنر جنرل کو ملنے آئی ہے تو اسے کہو کہ گورنر جنرل بہت مصروف ہے اور اگر باپ کو ملنے آئی ہے تو وہ رشتہ بمبئی میں ختم ہو گیا تھا۔ اسی طرح قائداعظم دورہ لندن کے دوران استقبالیہ قطار میں کھڑی اپنی بیٹی کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ گئے۔ ایسے کردار کے شخص نے پاکستان بنا یا تھا۔ نوجوانو! پاکستان ایسے بنا تھا۔ کیا ہمیں احساس ہے اور کیا ہم اس کی بہتری کے لئے کچھ کرتے ہیں۔
٭....٭....٭