بلوچستان کے مرکزی شہر اور دارالحکومت کوئٹہ سے کوءدو گھنٹے کی مسافت پر 156 کلومیٹر دور زیارت کا صحت افزا ، خوبصورت اور انتہائی ٹھنڈا مقام واقع ہے جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے ۔ زیارت کی یہ پرفضا ، خوبصورت اور پہاڑی پر واقع وادی قائد اعظم کو بہت پسند تھی وہ اکثر اس وادی میں آتے تھے۔ یکم جولائی 1948 کو جب قائد اعظم نے کراچی میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح فرمایا تو یہ وہ آخری تقریب تھی جس میں انہوں نے شرکت فرمائی اور خطاب فرمایا ۔ عینی شاھدوں کا کہنا ہے کہ وہ واضح طور پر صحت مند نظر نہیں رہے تھے اور انہیں خطاب کے دوران بار بار کھانسی آرہی تھی اس کے بعد وہ کوئٹہ چلے گئے اور چند روز قیام کے بعد زیارت چلے گئے پھر10 ستمبر تک اپنی زندگی کے آخری ایام کے آخری روز وشب اسی مقام پر گزارے دس ستمبر1948 کو وہ زیارت سے کوئٹہ روانہ ہوے اور گیارہ ستمبر کو کوئٹہ سے کراچی روانہ ہوئے جہاں پہنچتے ہی راہی ملک عدم ہوئے۔
زیارت کی وادی بلوچستان کا انتہائی سرد مقام ہے ۔ موسم سرما اکتوبر تا مارچ تک لوگ یہاں نہیں رہتے سرکاری ریسٹ ہاوسز اور بنگلوں میں صرف ملازمین اور چوکیدار نظر اتے ہیں یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بنا پر انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آگیا اور اس نے اسے اپنا گرمائی مقام کا درجہ دے دیا 1882 میں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی 1887 میں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کیا اس کے ساتھ یہاں پر دوسرے عہدیداروں کے مکانات اور دفاتر بنادئیے گئے زیارت کا قدیم نام کوشی تھا اٹھارویں صدی میں یہاں ایک بزرگ خرواری تھے جب وہ فوت ہوے تو اس کو جنوب میں 9 کلو میٹر دور دفن کرکے مزار بنایا گیا لوگ اس مزار کی زیارت کرنے آتے اس طرح اس کا نام زیارت پڑ گیا 1886 میں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دے دیا گیا1903 میں ضلع سبی کا گرمائی مقام قرار دیا گیا 1974 میں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا اور 1986 میں ضلع کا درجہ دیا گیا راقم السطور کو کچھ عرصہ قبل ایک طبی سمپوزئم میں شرکت کے لئے کوئٹہ جانا ہوا تو تو سمپوزیم کے بعد اگلے روز محترمہ سعدیہ راشد اور حکیم عبدالحنان وائس چانسلر ہمدرد یونیورسٹی اور دیگر مہمانوں کے ساتھ اس تاریخی مقام کو دیکھنے کا موقع ملا کوئٹہ سے واحد راستہ ہے جو زیارت جاتا ہے بہترین سڑک اور اس دونوں کناروں پر پھل دار درختوں کے خوب صورت باغ ہیں ۔ زیارت شہر پہنچ کر چھوٹے سے بازار سے چند منٹ کی مسافت پر جنوب کی جانب چند منٹ کی مسافت پر بلندی پر ریذیڈنسی کی باو¿نڈری وال شروع ہو جاتی ہے سڑک کے دائیں جانب ریذیڈنسی جبکہ بائیں جانب ریسٹ ھاوسز اور بنگلوں ہیں ۔ ہم لوہے کی گرل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگے آگے لوہے کا گیٹ ہے جو بند رھتا ہے یہاں سے ریذیڈنسی کی مکمل عمارت نظر آتی ہے یہاں سے گرل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے تو دوسرا مرکزی گیٹ ہے یہاں سے خواص گاڑیوں میں اندر جاتے ہیں جبکہ عام لوگ پیدل جاتے ہیں گیٹ کے بائیں جانب ریذیڈنسی دیکھنے کے اوقات لکھے ہوے ہیں صبح نو بجے تک شام پانچ بجے وقفہ ایک سے دو بجے ریذیڈنسی کے دروازہ پر اس کی تاریخ مرقوم ہے ۔ بارہ فٹ چوڑی سڑک پر چلتے ہوے عمارت کے سامنے وسیع وعریض صحن میں آ کھڑے ہوے ۔دائیں بائیں بڑی خوب صورت تراشی گئی گھاس کے لان میں سامنے ریذیڈنسی کی خوبصورت لانز، رنگا رنگ پھولوں ، چنار کے درختوں میں سے ہوتے ہوے بلندی کی سڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں کھڑے ہوگئے جہاں سے دود دور تک خوب صورت نظارہ کرسکتے ہیں ۔ صنوبر کی لکڑی سے تعمیر شدہ یہ عمارت انتہائی دیدہ زیب اوردلکش لگتی ہے۔
پوری عمارت کے اکتیس دروازے اور اڑتالیس کھڑکیاں ہیں جبکہ ملازمین کے لئے عمارت کے پیچھے کوارٹرز ہیں ریذیڈنسی زیارت جہاں قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دورکے دس یوم گزارے سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے 92۔ 1891 میں اس کی تعمیر پر 39012 روپے کی رقم خرچ کی گئی گورنر جنرل کے نمائندہ اے جی جی اور چیف کمشنر یہاں موسم گرما کی چٹھیاں گزارتے تھے قائد اعظم کے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے کے سبب 1985 میں صدر ضیالحق نے اسے قومی یاد گار قرار دیتے ہوے آثار قدیمہ میں شامل کردیا اور اس عمارت کا نام قائد اعظم ریذیڈنسی قرار دیا گیا 7 جنوری 1989کو سینٹ آف پاکستان نے اس کی منظوری دے دی مکمل لکڑی سے بنی ہوئی اس عمارت کے صدر دروازے سے سڑھیوں پر آئیں تو دور دور تک صنوبر کے درخت انتہائی دلکش منظر پیش کرتے ہیں پھر صحن میں سر سبزہ اور پھولوں نے اس کے حسن کو مزید دوبالا کردیا ہے جب سڑھیاں چڑھ کر عمارت کے اندر داخل ہوں تو اس کے قدمچے پتھر کے بنے ہوے ہیں جب کہ تمام عمارت صنوبر کے درخت کی لکڑی جو اس وادی کی حسین شان ہے سے بنایا گیا ہے جبکہ اوپری ڈھلوان اور چھت لوہے کی نالی اور چادر سے بنائی گئی ہے ۔ قائد اعظم کو پھپھڑوں کی شکایت تھی اس مرض کےلئے یہ پرفضا مقام اور پہاڑی جگہ بہترین مقام تھا جو قائد اعظم کو بہت پسند تھی یہاں ان کی حالت بہتر ہونے لگی تھی کہ اچانک دس ستمبر کو طبیعت بگڑ گئی اور انہیں کراچی روانہ کردیا گیا۔ جہاں ان کی رحلت کا سرکاری اعلان کردیا گیا اور یوں وادی زیارت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ اعزاز حاصل ہو گیا کہ قائد اعظم نے زندگی کے آخری ایام یہاں گزارے اور یہ عمارت قائد اعظم ریذیڈنسی کے نام سے تاریخ میں یاد رکھی جاے گی۔