”حضرت غوث الاعظم کے ،حوالے سے ، القادری ، قائداعظم !“

معزز قارئین ! آج 11 ستمبر ہے ، بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے وِصال کا 75 واں سال۔ اعداد (گیارہ) کے بارے میں مَیں کیا بات کروں۔ حضرت غوث ا±لاعظم شیخ عبدا±لقادر جیلانی / گیلانی ”گیارہویں شریف“کے پیر کہلاتے تھے / ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے خود یہ بیان فرمایا تھا کہ ”ہم لوہانہ ”گوت“ (Sub-Caste) کے راجپوت ہیں اور میرے مور±وث اعلیٰ نے حضرت غوث ا±لاعظم کے جانشین، پیر سیّد عبدا±لرزاق صاحب کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔
....O....
” شرفِ قبولیت ِ اسلام !“ 
2013ءکے اوائل میں ماہر قانون و تعلیم و دانشور اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن جناب آزاد بن حیدر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ” تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سیّد احمد خان“ سے قائداعظم تک“۔کتاب میں آزاد بن حیدر نے لکھا ہے کہ ”متحدہ ہندوستان کی قانون ساز مرکزی اسمبلی کے موسم خزاں کے اجلاس 1938ءکے موقعہ پر اجلاس سے فارغ ہو کر مسلم لیگ پارٹی کے ارکان "Party Room" میں بیٹھ گئے، کیوں کہ باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی، ا±س وقت قائداعظم ایک صوفہ پر تشریف فرما تھے اور حاجی سرعبد اللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، مولوی سیّد غلام بھیک نیرنگ، جناب محمد نعمان اور حاجی عبدا±لستار ارد گرد بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ ا±س نشست میں قائداعظم نے اپنے خاندانی حالات پر روشنی ڈالتے ہ±وئے فرمایا کہ....
” میرے آبا اجداد لوہانہ راجپوت تھے۔ یہ پنجاب کے بعض حصّوں، بالخصوص ملتان میں ابھی تک آباد ہیں، میرے موروثِ اعلیٰ حضرت غوث ا±لاعظم کے خاندان کے ایک معزز فرد، پیر سیّد عبدا±لرزاق صاحب کے ہاتھ پر شرفِ بہ اسلام ہ±وئے تھے۔ تجارت ا±ن کا پیشہ تھا، اِس وجہ سے وہ خواجہ کہلاتے تھے لیکن بعد میں یہ لفظ بگڑ کر خوجہ ہوگیا!“۔
....O....
” علاّمہ اقبال ! ‘ ‘ 
یاد رہے کہ ”عاشقِ رسول، علاّمہ اقبال کے مور±وثِ اعلیٰ "Suproo" گوت (Sub-Caste) کے ہند براہمن اور ا±ن کے قبیلے نے بھی اِسی طرح اسلام قبول کِیا تھا اور ا±نہوں نے ہی متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے قیام کے لئے لندن میں مقیم بیرسٹر محمد علی جناح کو مدّعو کِیا تھا اور پھر ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے قائدین نے جناح صاحب کو اپنا راہبر و راہنما تسلیم کرلِیا تو آپ، قائداعظم کہلائے!“۔ 
....O....
” گاندھی کے چرن/ کانگریسی مولوی ! “ 
معزز قارئین ! یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ ا±نہوں نے ہندوﺅں کی متعصب سیاسی جماعت ”انڈین نیشنل کانگریس“ کے باپو (Father) شری موہن داس کرم چند گاندھی کے چرنوں میں بیٹھنے اور ”مکّی، مدنی“ کہلانے والے کانگریسی مولویوں کو متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن (پاکستان) بنانے کا موقع نہیں دِیا۔ عاشقِ رسول علاّمہ اقبال ”مصّورِ پاکستان“ بنائے گئے اور صادق اور امین محمد علی جناح نے ، قائداعظم کا ر±تبہ حاصل کرلِیا؟۔ 
....O....
” اہل بیت /غوث ا±لاعظم!“ 
معزز قارئین ! غوث ا±لاعظم، صرف بلند پایہ، روحانی پیشوا ہی نہیں بلکہ ایک جلیل ا±لقدر شاعر بھی تھے۔ مَیں فی الحال ثواب کے لئے آپ کے صرف دو شعر پیش کر رہا ہ±وں .... 
غلام، حلقہ بگوشِ رسول و ساداتم!
زہے نجات نمودن ، حبیب آیا تم! 
....O....
ترجمہ:۔ (ملّت اسلامیہ سے مخاطب ہو کر غوث ا±لاعظم نے فرمایا کہ ”مَیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم اور جملہ سادات کا دست بستہ غلام ہ±وں۔ ہماری نجات کے لئے یہ کتنی محبوب نشانیاں موجود ہیں؟)۔
کفایت است ز روح رسول و اَولادش!
ہمیشہ درِ دو جہاں جملہ مہماتم!
....O....
ترجمہ: ( غوث ا±لاعظم فرماتے ہیں کہ ”رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کی اولاد کی ارواح فتوح، دونوں جہاں کے امور کے لئے جملہ مہمات کے لئے کفایت کرنے والی ہیں )۔ 
....O....
” مولائی علاّمہ اقبال / قائداعظم ! “ 
مولا علی مرتضیٰ کے حوالے سے علاّمہ اقبال ”مولائی“ کہلاتے تھے اور قائداعظم بھی، جب کسی صحافی نے قائداعظم سے پوچھا کہ ” آپ شیعہ ہیں یا س±نی؟“ تو آپ نے فرمایا کہ ”نہ شیعہاور نہ س±نی لیکن ہم سب مسلمان تو حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں!“۔ میرے جدّی پشتی پیر و م±رشد خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت معین ا±لدّین چشتی حسینیت کے علمبردار تھے، اپنے جدّی پشتی پیر و م±رشد سے سبق مجھے اپنے والد محترم تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان سے ملنا شروع ہ±وا تھا (جو آج بھی مل رہا ہے)۔ 
معززقارئین ! مَیں اکثر بیان کر چکا ہ±وں کہ ”میرا حاصل زندگی یہی ہے کہ مجھے روزنامہ ”نوائے وقت“ کے کالم نویس کی حیثیت سے ستمبر1991ءمیں صدر پاکستان جناب غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت سے خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہ±وئی۔ مجھے یقین ہے کہ ”اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا۔ بہرحال قائداعظم کے یوم وِصال پر نظم قبول فرمائیں، جس کا عنوان ہے....
”کِتنا بابرکت ہے، حضرت قائداعظم کا نام؟“
نامِ محمد مصطفےٰ نامِ علی عالی م±قام!
....O....
کِتنا بابرکت ہے، حضرت قائداعظم کا نام؟
جب م±قّدر ک±ھل گیا، اِسلامیانِ ہِند کا!
....O....
قائدِ ذِی شان ا±بھرا، ص±ورتِ ماہِ تمام!
ا±س کی اِک آواز پر، ہم جانبِ منزل چلے!
....O....
کر گیا محسور سب کو ح±سنِ ذات، ح±سنِ کلام!
ٹوٹ کر، گِرنے لگے، ہر س±و، اندھیروں کے صَنم!
....O....
رَزم گاہ میں، آیا جب، وہ عاشقِ خَیر± الانام!
سامراجی م±غ بچے بھی اور گاندھی کے سپ±وت!
....O....
ساتھ میں ر±سوا ہوئے، فتویٰ فروشوں کے اِمام!
یہ ترا اِحسان ہے کہ آج ہم آزاد ہیں!
....O....
اے عظیم ا±لشان قائد! تیری عظمت کو سلام!
اپنے نصب ا±لعین کی، تکمیل کرسکتے ہیں ہم!
....O....
ق±طبی تارے کی طرح ، رَوشن ہے قائدِ کا پیام!
اِس طرح دِل میں بسائیں، قائداعظم کی یاد!
....O....
م±لک میں قائم کریں، مضبوط جمہوری نظام!
مشورہ اِک، ساقی، دَوراں کو دینا ہے اثر!
اِس طرح محفل سجے، کوئی رہے نہ تَشنہ کام!
....O....

ای پیپر دی نیشن