1948ءمیں قائد اعظم محمدعلی جناح ؒ نے اردو زبان کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے حکم جاری فرمایا کہ پندرہ سال کے اندر اندر اردو کو ہر شعب زندگی میں انگریزی کی جگہ نافذ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی بھی قوم کی ترقی و خود مختاری اور اتحاد کے لیے ایک مشترکہ قومی زبان ضروری ہوتی ہے۔اردو تحریک کی جانب سے عدالت عالیہ میں آئینی درخواست جمع کروائی گئی، جو کئی سال کے لمبے روایتی چکروں کے بعد منظور کر لی گئی اوربالآخر 8 ستمبر 2015ءکو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی زبان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو 90 دن کی مہلت دے دی۔ اور حکم دیا کہ نوے دن کے اندر اندر حکمران آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے قومی زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کریں۔اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن حکومت پاکستان کی تمام وزارتوں کے اعلامیے اردو کی بجائے انگریزی میں جاری کیے جاتے ہیں۔اس نوے دن کی مہلت کو گزرے بھی عرصہ بیت گیا، مگر غلام حکمرانوں نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ تاہم کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر اپنے اپنے ماتحت دفاتر میں قومی زبان نافذ کر دی ہے۔ کل جماعتی یوم نفاذ اردو کانفرنس پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر اہتمام کل جماعتی یوم نفاذ اردو کانفرنس بھرپور طریقے سے منایا گیا۔یہ دن ہر سال آٹھ ستمبر کو عدالت عظمٰی کے نفاذ اردو فیصلے کی سالگرہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔الحمرا ہال میں اردو کانفرنس میں ہم نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آپ جتنا مرضی منہ بنا بنا کر انگریزی بول لیں ' آپ کی عزت دنیا میں اس وقت ہی ہوگی جب آپ اپنی زبان کی عزت کروگے' اپنی زبان کو شناخت دو گے تو تمہاری اپنی بھی شناخت ہوگی' امریکہ میں بچے کو سکول داخل کرواتے وقت اس کی مادری زبان کے بارے میں خاص طور سے پوچھا جاتا ہے تاکہ اس کو علم۔دینے میں آسانی رہے اور بچے کے لئے مادری زبان سمجھنے والی ٹیچر کا انتظام کیا جا سکے۔ بچے کو اللہ نے صلاحیت سے نوازا ہے کہ ایک وقت میں سات زبانیں سیکھ سکتا ہے ، ہمیں اپنے بچوں کو مادری زبان سکھانے میں کیا شرمندگی حائل ہے ؟ اردو بین الاقوامی سطح پر بولی سمجھی جانے والی زبان کو خود پاکستان اس کے اپنے گھر میں پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ انگریزی زبان سکھانے کے احساس کمتری نے اردو اور پنجابی زبانوں کو کم تر سمجھا جانے لگا ہے جبکہ اردو زبان کوپاکستان کی سرکاری اور لازمی زبان کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔متحرک سماجی خاتون محترمہ فاطمہ قمر کی اردو زبان کی ترویج و ترقی میں خدمات قابل تحسین ہیں۔ پاکستان قومی زبان تحریک برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کی انیسویں اور بیسویں صدی میں زبان اردو ہی تھی کیونکہ برطانوی سامراج کی آمد سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو چکا تھا، اب مسلمان اپنی آواز جس میں زبان میں بلند کر رہے تھے وہ اردو ہی تھی جو عوام او ر خواص ہر دو میں مقبول تھی۔تحریک علی گڑھ سے وابستہ اہل قلم نے تحفظ زبان اردو میں اہم کردار ادا کیا۔اکابرینِ تحریک پاکستان نے اردو زبان کی حفاظت دو قومی نظریے کی شناخت کے طور پر کی، آہستہ آہستہ ہندوو¿ں کو واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر کی منفرد شناخت رکھنے والی قوم ہے ان کی تہذیب کو ثقافت کو کبھی پامال نہیں کیا جاسکتا۔انگریزی میڈیم کی وجہ سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں رٹا کلچر کے پہاڑ تلے دب کر مفلوج ہوگئیں اور ملک تعلیمی وسائنسی میدان میں ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوتا گیا۔ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر لوگ تعلیم سے دور ہوتے گئے۔انگریزی میڈیم کی وجہ سے تعلیمی ادارے سائنس دان پیدا کرنے کی بجائے کرپٹ بیوروکریٹ اور سیاست دان پیدا کرنے لگے۔
2001ءکی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔اردو دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔
اردوتحریک اردو زبان کو بین الاقوامی زبان بنانے کی کوشش کرنے والی ایک معاشرتی سیاسی تنظیم تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ برطانوی ہندوستان میں اردو زبان کو برصغیر میں مسلمانوں کی ثقافتی اور سیاسی زبان قرار دیا جائے۔ یہ تنظیم سر سید احمد خان کی تنظیم تحریک علی گڑھ کی سرپرستی میں چل رہی تھی اور تحریک پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔
1857ءکی جنگِ آزادی بظاہر مسلمانوں اور ہندوو¿ں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی لیکن وقت نے آخر کار ظاہر کردیا کہ ہندو مسلمانوں کے حمایتی نہیں بلکہ وہ فقط اپنی "اکھنڈ بھارت سوچ” کے تحت مسلمانوں کو استعمال کرتے رہے اور درحقیقت انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ آستین کے سانپ کا کردار ادا کیا۔
انگریز تو پہلے ہی مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کے درپے تھے، اس ضمن میں انہوں نے بھی کوئی حربہ نہ چھوڑا تھا، 1857ءکے بعد جب ہندوو¿ں کو واضح ہوا کہ وہ کبھی متحدہ ہندوستان پر اپنا راج قائم نہیں کرسکتے تو انہوں نے مکار سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریز سرکار کی قربت حاصل کرلی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید اکسانا شروع کردیا۔
اردو زبان جس کا خمیر مسلمانوں کی آمد سے برصغیر کی بولیوں اور مسلمانوں کی زبانوں عربی، ت±رکی اور فارسی کے امتزاج سے تیار ہوا تھا اور مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہی اس زبان نے پرورش پائی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کیا اور مسلمانوں کے دورِ سلطنت میں ہی برصغیر کی مقبول ترین زبان بن کر ابھری اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی۔