انڈے سے بہتر تھا اذان پر مرتا

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان
 ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 
takhan_column@hotmail.com 
آج ہمیں ایسے عدالتی نظام کی ضرورت ہے جس پر انگلیاں نہ اٹھیں۔،ایسی بارز چاہیے جو وکلا کے اپنے مسائل حل کرانے پرآخری حد تک جاسکیں۔ایسی عدلیہ کی ضرورت ہے جس میں لوگوں کو انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے۔ جہاں قانون سب کیلیے یکساں ہو۔ کچھ عرصے سے انصاف دینے والوں نے انصاف کا برا حال کر رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ ملک کا سب سے بڑا عدالتی فورم اورقوم کی آخری امید ہے۔ اس کے بعد خدا کی عدالت رہ جاتی ہے جس کو یہاں انصاف نہیں ملتا وہ انصاف کیلئے خدا کی عدالت سے رجوع کرتا ہے اب یہاں کے سارے مقدمات وہاں پہنچ رہے ہیں۔وہ عدالت کیس سنے گی نہیں کیونکہ وہ ذات سب کچھ پہلے سے دیکھ رہی ہے۔ صرف وہ عدالت اپنا فیصلہ سنانے گی اور اس پر فوری عمل ہو گا۔ ہمارے ججز صاحبان قانون کے ساتھ سب کچھ جانتے ہیں مگر یہ رب کی عدالت کو نہیں جانتے اگر اس عدالت کو جانتے ہوتے تو پھر یہ فیصلے قانونی کرتے اگر نہیں کرنے کے قابل تھے یا کوئی مجبوری تھی تو گھر چلے جاتے کچھ اور کر لیتے۔ انہیں اور ہمیں بھی اس سزا و جزا کے عمل سے ایسے ہی گزرنا ہو گا جیسے ایک ادمی گزرے گا۔ پھر لگ پتہ جائے گا کہ جج وکیل کیا ہوتا ہے؟ قدرت ان سب کا حساب لے گی اور بے حساب لے گی۔ ابھی تک ہمارے پاس چند ایسے غیر مسلم ججز ماضی میں رہ چکے ہیں جن پر کبھی انگلیاں نہیں اٹھیں۔باقی تو برا ہی حال ہے۔ آج بھی انگریزی دور کے جسٹس کھڑک سنگھ کو یاد کیا جاتا ہے جو کھڑک سنگھ کو نہیں جانتے انہیں اس کا تعارف کروائے دیتے ہیں۔ 
( کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں)
آپ نے یہ شعرتو بچپن سے سنا ہوگا۔مگرآپ کواس کی داستان کا نہیں پتہ ہوگا۔کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاو¿ں کے پنچایتی سرپنچ والے تھے،ایک دن معاملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو (ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آرڈر وائسرائے کرتے تھے)
بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا
وائسرائے نے نام پوچھا؟
کھڑک سنگھ'
وائسرائے: تعلیم؟
کھڑک سنگھ: "تسی مینو جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"
وائسرائے ہنستے ہوئے 'سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے'؟کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاو¿ دیا اور بولے " بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاو¿ں میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں"وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا،کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی۔جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے۔ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا 'مائی لاڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے'۔جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔عورت بولی "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور میرے کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا"جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصے سے دیکھا اور پوچھا 'کیوں بدمعاشو!! تم نے بندہ مار دیا'؟دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا 'نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کھیسی زمین کھودنے کیلیے تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی فصل کاٹنے کیلیے تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف اسے سمجھانا تھا"جسٹس کھڑک سنگھ نے غصے سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ دیکھیں جی "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟
جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟'جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے' پولیس والے نے جواب دیا۔تو جج صاحب نے کہا انہیں کا بندہ ہوا ناں جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑا ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردئے۔فیصلے میں لکھا تھا ( ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیاجائے)پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا۔ آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کیلئے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری اور مجرموں کے ساتھ ان کے بھاری فیسیی لینے والے وکیلوں کو اور ججز کی پشت پناء کرنے والوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر ہو سکتی ہے۔ کھڑا سنگھ کے دور میں وکلا کی بار کونسلیں بار ایسوسی ایشنز نہیں تھیں ورنہ ہڑتال کی کال دے دیتے۔اس موقع پر وکلا اپنی لیڈری چمکاتے۔ پیسے بناتے۔ اس لیے کھڑا سنگھ کامیاب رہے کہ اس وقت یہ چوچلے نہ تھے یہ دیواریں نہ تھیں۔ بنچ اور بار اگر اپنے فیصلے خود کرتے تو اج انصاف کا حشر یہ نہ ہوتا۔ اس وقت مجھے ایک مرغے اور اس کے مالک کی بات یاد آ رہی ہے اس سے امید ہے سبق سیکھیں گے۔ 
ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا۔ ایک بار اس نے مرغا ذبحہ کرنا چاہا۔مالک نے مرغے کو ذبحہ کرنے کا کوئی بہانا سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے اذان نہیں دینی ورنہ ذبحہ کردوں گا۔ مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی! صبح جونہی مرغ کی اذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے اذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پڑپھڑایا۔مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبحہ کردوں گا۔اگلے دن صبح اذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے، اگلے دن اذان کے وقت مرغا بلکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔ اب کی بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی بس کی بات نہیں تھی !!!مالک نے کہا کہ کل سے تم نے صبح انڈا دینا ہے ورنہ ذبحہ کردوں گا۔اب مرغے کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی اور وہ بہت زار و قطار رویا۔ مالک نے پوچھا کیا بات ہے؟موت کے ڈر سے رو رہے ہو؟ مرغے کا جواب بڑا باکمال اور بامعنی تھا۔کہنے لگا: نہیں! میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا کہ اذان پر مرجاتا…پہلا غیر قانونی حکم مانو گے تو پھر آرڈر آتے جائیں گے تعمیل ہوتی جائے گی''چمڑی اترتی جائے گی''اس لیے اپنے اندر ہمت پیدا کریں حق کو حق کہنے کی۔جس طرح کے فیصلے عدلیہ دے رہی ہے اور شہریوں پر مہنگائی کے بم برس رہیں ہیں،یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ہم ججز کو ایسے فیصلے کرنے سے روک نہیں سکتے کیوں کہ بنچ کے فیصلے بار کی تقریریں کمزور ہیں۔ منے کے ابا کا نام لے نہیں سکتے۔ اشاروں میں انکے بارے باتیں کرتے ہیں۔ ہم اپنی بار اور وکلا کے مسائل پر بات نہیں کرتے جبکہ سیاسی جماعتوں کے لیے باروں کو استعمال کرتے ہیں۔ بنچ بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے خلاف فیصلے قانونی نہیں سیاسی کرتے ہیں۔ کاش ہم مرغے سے سبق سیکھیں اور کھڑاک سنگھ جیسے جج کو عدلیہ میں لائیں تو پھر ہی حالات بدل سکیں گے ورنہ…!!!

ای پیپر دی نیشن