عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
ساتھی ساتھ ہو تو اہداف کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب سے کامیاب ترین انسان کے لیے بھی تنہائی کسی قید سے کم نہیں، ساتھی ساتھ ہو تو دل کے کئی ایسے رازجو کسی سے کہے جانا مشکل ہے آسانی سے کہہ سکتے ہیں۔ رشتہ ازدواج میں بندھے ساتھی ایک دوسرے کا مضبوط سہارا ہوتے ہیں۔یہ ساتھ زندگی کے کسی موڑ پر چھوٹ جائے تو باطن کا شور تنہائی کا احساس جگاتا ہے۔ دیکھنے میںلگتا ہے کہ آدمی ساتھی کی یاد لیے آگے بڑھ گیا ہے، کامیابیاں سمیٹ رہا ہے لیکن ایسے میں بھی وہ شخص اندرونی شکست و ریخت سے لڑتا رہتا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل تو کر لیا لیکن قائد اعظم کی نجی زندگی میں شریک حیات کے ساتھ کی کمی غالب رہی۔قائد اعظم نے اپنی زندگی میں دو شادیاں کیں ۔ ایک والدین کی پسند جبکہ دوسری ان کی اپنی پسند تھیں، دونوں ہی قائداعظم کی زندگی میں وفات پا گئیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح اپنی دوسری بیوی رتی جناح سے عمر میں 24سال بڑے تھے۔ یہ شادی رتی جناح کی خواہش پر ہوئی جبکہ اس شادی کی شرط قائد اعظم نے یہ رکھی کہ پہلے وہ مسلمان ہوں۔ اسلام قبول کرنے کی حامی بھرنے سے پہلے رتی جناح نے کئی اسلامی کتب کا مطالعہ کیا اور انھیں پڑھنے کے بعد اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
بعض مورخین بانی پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کو نہایت سردمہر، خشک مزاج اور جذبات سے عاری شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک غرور کے باعث قائد کی شخصیت میں یہ خامیاں پیدا ہوئیں۔ یہ اندازہ غلط ہے۔ قائداعظم فضول باتوں اور کاموں کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے اور تقریبات میں جانے سے پرہیز کرتے۔ مزید براں ایک وکیل اور سیاست دان ہونے کے ناطے وہ انتہائی مصروف شخص بھی تھے۔ مصروفیت کے باعث جب وہ کسی سے صرف کام کی بات کرتے اور اِدھر ا±دھر کی باتوں سے دور رہتے،لہذا اس طرز عمل کو ان کا غرور فرض کرلیا گیا۔
پھر ایک پارسی لڑکی رتن بائی سے ان کی داستانِ عشق یہ سچائی اجاگر کرتی ہے کہ عام انسانوں کی طرح ان کے سینے میں بھی ایک دل دھڑکتا تھا جو سورج کی کرن، کلی کے چٹکنے، بچے کے مسکرانے اور حسین لڑکی کی طرح دار اداو¿ں سے یونہی متاثرہوتا جیسے سبھی دل ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے دوسری دہائی میں قائداعظم اور رتن بائی کا عشق ایسا ہیجان انگیز واقعہ تھا جس نے پورے بمبئی کو ہلا کر رکھ دیا۔ تب تک پارسی صنعت کار ہندوستان میں بہت بڑی معاشی و سیاسی قوت بن چکے تھے۔یہ بھی سچ ہے کہ قائداعظم اپنے نجی معاملات پر بات کرنا ناپسند کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے نجی معاملات کے متعلق کبھی ڈائری نہیں لکھی۔ وہ ہر خط کا جواب دینا ضروری سمجھتے تھے، مگر ان خطوط میں بھی نجی معاملوں کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ خاص طور پر رتی بائی سے عشق اور شادی سے متعلق مواد تو بہت ہی کم دستیاب ہے۔ حیات قائد کے اس اہم جذبات انگیز دور پر چند کتب ہی روشنی ڈالتی ہیں۔ رتی سے شادی کے بعدجناح سہ پہر کو گھر آتے اور بقیہ وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گزارتے۔ قائد اعظم خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ عورتوں پر بے جا پابندیاں لگانے کے حق میں نہیں تھے اور اپنی بیگم کی آزادی کا دل سے احترام کرتے۔بمبئی کے سوشل و سیاسی حلقوں میں اپنی دلکشی، ذہانت، نفاست اور خوبصورتی کے باعث جناح اور رتی بائی کاجوڑا بہت مقبول ہوا۔ مگر رفتہ رفتہ جوڑے کے تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ رتی جناح چاہتی تھیں کہ شوہر انہیں زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔جبکہ قائد اعظم کی سیاسی اور اور عدالتی مصروفیات بڑھ رہی تھیں اور وہ ان سے علیحدہ نہیں رہ سکتے تھے۔ یہی معاملہ ان کے مابین پہلی وجہ نزاع بن گیا۔خاندان اور اپنی کمیونٹی سے کٹ کر رہنا بھی رتی کے لیے بوجھ ثابت ہوا۔ 14 اگست 1919ءکی رات رتی جناح نے ایک بیٹی (دینا) کو جنم دیا۔ بچے کی پیدائش کے بعد عموماً اختلافات کا شکار جوڑوں کی زندگی میں ٹھہراو¿ آجاتا ہے۔مگر جناح جوڑے کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ آسکی۔بے پناہ مصروفیات کے باوجود قائداعظم مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اپنی بیگم کوعملی زندگی کے حقائق سے مانوس کراسکیں۔ ان کی آخر تک یہی کوشش رہی کہ رتی جناح ایک نارمل بیوی اور ماں کا روپ دھار لیں مگر انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ آخر آزاد اور بے چین روح کی مالک، رتی جناح آنتوں کی سوزش اور پھر ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر 20 فروری 1929ءکو وفات پاگئیں۔
محبت کی یہ تکون جس کے ایک سرے پر قائداعظم تھے، تو دوسرے سرے پر پاکستان جبکہ تیسرے سرے کی مالک رتی تھیں ٹوٹ گئی۔رتی کی موت نے قائد اعظم کو توڑ دیا۔سچی محبت ہمیشہ کے لیے ساتھ چھوڑ جائے تو ضبط کے بندھن ٹوٹنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مضبوط اعصاب رکھنے والے شخص کو دنیا نے صرف دو بار روتے دیکھا ۔ ان دونوں دفعہ آنسوﺅں کی وجہ رتی کی جدائی کا غم رہا۔ پہلی بار جناح کی آنکھ میں آنسو رتی کو دفناتے ہوئے جاری ہوئے تو دوسری بار اگست 1947 کو قائد اعظم کی آنکھیں اس وقت چھلکیں جب انہیں آخری مرتبہ ممبئی میں رتی کی قبر پر حاضری کے بعد ہمیشہ کے لیے پاکستان آنا تھا۔جناح کی رتی سے محبت حصول پاکستان سے عشق میں گم ہو گئی۔