زیڈ اے سلہری
قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر شریف المجاہد نے اپنی کتاب ”جناح“ میں ایک اور پریشان کن سوال اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔”ابھی ایک اور اہم سوال حل طلب ہے کیا قائداعظم نے پاکستان کے حصول کے بعد ایک اسلامی مملکت کے قیام یعنی اسلامی نظریات اور اصولوں کے نفاذ کے نصب العین سے انحراف کیا تھا۔“ بڑے آدمیوں کے بارے میں اس قسم کے متنازعہ نوعیت کے مسائل ان کے حامی اور مداح اٹھایا کرتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انحراف پسندوں نے ان کے بارے میں جو شکوک پیدا کئے ہوں ان کو دور کیا جائے۔ لیکن مجاہد نے اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ اس سوال کو یونہی ہوا میں معلق چھوڑ گئے ہیں۔ اور ان میں شرانگیزی کا جو عنصر پایا جاتا ہے۔ وہ کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے۔
قائداعظم کا افتتاحی خطاب:۔
قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے11 اگست1947ءکو جو افتتاحی خطاب کیا تھا اور جس میں ایک مملکت کے مساوی شہریوں کی حیثیت سے مسلمانوں اور ہندوﺅں کا مشترک محاذ قائم کرنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔ مجاہد نے اس کے متعلق متذکرہ بالا سوال اٹھایا تو ہے لیکن اس کی کوئی وضاحت نہیں کی اور اسے یونہی چھوڑ دیا ہے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ”پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں جہاں ایک قوم اکثریت میں ہے اور دوسری اقلیت میں ہے۔ وہاں دونوں کے درمیان جس قسم کے تاثرات پائے جاتے ہیں وہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایسے طبقے پائے جاتے ہیں جو ممکن ہے اس رائے سے اتفاق نہیں کریں گے نہ اسے پسند کریں گے لیکن میری رائے میں اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ.... اگر آپ ماضی کو بھلا کر اور کلہاڑوں کو زمین میں دفن کرکے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر باہمی تعاون سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کریں گے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ آپ میں ہر فرد خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اول و آخر اس مملکت کا شہری ہے جسے دوسروں کے مساوی حقوق اور مراعات حاصل ہیں اور اس پر برابر کی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اگر آپ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مل جل کر اسی جذبہ سے کام کریں گے کہ آپ ہم وطن ہیں اور اس وطن کے شہریوں کی حیثیت سے آپ کو مساوی حقوق و مراعات حاصل ہیں اور آپ پر یکساں ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ تو یقین جانئے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے آپ کو متحدہ کوششوں کی کامیابی کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ ہمیں(ماضی کے تجربہ سے) سبق سیکھنا چاہیے۔ آپ آزاد ہیں۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی ہے۔ پاکستان میں آپ کو جو بھی عبادت گاہ ہے آپ کو اس میں جانے اور اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہے۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، کسی نسل اور کسی عقیدہ سے ہو۔ اس سے مملکت کا کوئی تعلق نہیں۔ اس بنیادی اصول کے ساتھ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی حیثیت کے شہری ہیں۔ اگر ہم اس اصول کو اپنے نصب العین کے طور پر ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ تو میرا خیال ہے کہ آپ کچھ عرصہ کے بعد یہ محسوس کریں گے کہ ہندو ہندو اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ لیکن میں مذہبی اعتبار سے یہ بات نہیں کہہ رہا۔ کیونکہ اپنے عقیدہ کا معاملہ ہر آدمی کا ذاتی مسلہ ہے لیکن میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اعتبار سے ہم سب ایک وطن کے یکساں حیثیت رکھنے والے شہری بن جائیں گے۔“
قائداعظم کا مطلب کیا تھا؟
فسادات کے مارے ہوئے برصغیر میں پاکستان کے لئے اس انداز سے بہتر ابتدا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن مجاہد اس کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے شکوک و شبہات کو ہوا دیتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ”اس تقریر کا اصل مفہوم کیا ہے؟“
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ملک نہیں رہے گا۔؟ یا یہ کہ پاکستان کا نیا دستور اسلامی اصولوں پر مبنی نہیں ہوگا۔ اس تقریر کا پاکستان کی سیاسی اور نظریاتی اساس سے کوئی تعلق تھا بھی یا نہیں؟ اگر نہیں تھا تو پھر ان الفاظ سے قائداعظم کا مطلب کیا تھا کہ”ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے“........ وہ یعنی ایک مشترک ملک کے شہریوں کی حیثیت سے ہندو ہندو نہیں رہیں گے.... مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ ایک وطن کے شہریوں کی حیثیت سے، مجاہد نے یہاں سیکولر مملکت کی تائید میں کئی حوالے دیئے ہیں اور جس رائے کو انہوں نے خاص طور پر اہمیت دی ہے وہ آئی جے روز منتھال کی رائے ہے جسے وہ زیادہ وسیع النظر مبصر سمجھتے ہیں جس نے قائداعظم کی تقریر کو پریشان خیالی اور لفظوںکے غلط انتخاب کا مظہر قرار دیا تھا۔ اس کے بعد مسٹر مجاہد قائداعظم کی حمایت میں یہ کہتے ہیں کہ”تاہم یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس ایک واقعہ کے بعد قائداعظم نے کئی بار اس موضوع پرو اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں انہوں نے ہر بار یہی کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہوگا لیکن اپنی نوعیت کی یہ واحد مثال تھی جب قائداعظم نے اس قسم کی بات کہی“۔ آگے چل کر وہ پھر یہ کہتے ہیں کہ اگر اس بیان سے طے شدہ راستہ سے انحراف کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں تحریک پاکستان کے دوران ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات پر زور دینے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی تھی (تو اس تحریک اور مطالبہ کے جواز کی خاطر) تدبر(اور پاکستان کے استحکام اتحاد اور یکجہتی) کا تقاضا بھی یہی تھا کہ پرانے زخموں کو مندمل کیا جائے ماضی کی تلخ یادوں کو دفن کرکے ان کو فراموش کر دیا جائے اور اقلیتوں میں اعتماد اور بھروسہ پیدا کیا جائے۔
مجاہد مستقل طور پر پہلو بدلتے رہتے ہیں تاکہ ان پرگرفت نہ ہو سکے۔ پہلے وہ قائداعظم کو مسلم قومت کے تصور کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ جو مسلمانوں کے لئے ایک الگ آزاد اور خود مختار وطن کے علمبردار بنتے ہیں اور وہ قائداعظم کے اس موقف کو درست قرار دیتے ہیں کہ وہ تحریک پاکستان کے دوران اس موقف پر سختی سے ڈٹے رہے۔ اس کے بعد وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے پہلے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے قائد کو تحریک آزادی کے مقصد سے انحراف کا ملزم گردانتے ہیں یہ کام کر چکنے کے بعد ان محرکات کا تذکرہ شروع کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے خیال کے مطابق قائداعظم نے مصلحت پرستی سے کام لیا۔ ایک طرف تو وہ قائد کے بیان کو مدبرانہ اور ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کا بیان اس لئے جاری کیاگیا کہ قائداعظم اسلامی سیاسی نظام کی باریکیوں اور نزاکتوں کو پوری طرح سمجھنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ ایک مقام پر مجاہد کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی بہت بڑا عالم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا وہ خود عجز کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ مجھے صرف زندگی کے دو امور قانون اور سیاست کا علم ہے۔ ان دونوں معاملات سے نمٹنے میں ان کی تمام تر توجہ اور توانائی صرف ہوگئی اور ان دو باتوں کے سوا ان کو کسی اور بات پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملا بلکہ 1940ءکے بعد سے سیاست میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کو قانونی پریکٹس کو کم کرکے روز بروز سیاست کی طرف زیادہ توجہ دینی پڑی۔ ایک اور مقام پر قائداعظم کی تقریروں کے بہت سے حوالے دینے کے کے بعد وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم آخر دم تک پاکستان کے اسلامی مقاصد کے علمبردار رہے اور پھر مسٹر مجاہد قائد پر ر حم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قائداعظم کے تصورات بنیادی طور پر اسلامی تھے۔
اسلامی طرز زندگی پر زور دینے کی وجہ سے مستقبل کی اسلامی مملکت کے خدوخال نمایاں طرز پر واضح ہوگئے۔ لفظ مسلم اسلام کے ہم معنی ہوگیا تھا۔ پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں سے مسلم لیگ کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگی لیڈر یہ موقف پیش کرتے تھے کہ مسلم اکثریت والے ملک کو آسانی سے اسلامی مملکت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن ہندو اکثریت والی مملکت جس کا منصوبہ ہندو اور انگریز بنا رہے تھے کسی بھی صورت میں اسلامی مملکت میں تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ بظاہر ان دونوں کا اختلاف سیاسی نوعیت کا تھا۔ لیکن مسلم عوام کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے لیکن دراصل یہ اختلاف نظریاتی نوعیت کا تھا۔ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی علامت کے اعتبار سے قائداعظم کی شخصیت اعلیٰ ترین نوعیت کی اسلامی شخصیت تھی۔ انہوں نے سیاسی بصیرت اور اعلیٰ تدبر کی بدولت اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا کہ پاکستان کا وجود اسلامی اتحاد کی کلید ثابت ہوگا۔
اکثریت کی حکمرانی کا تصور:۔
برصغیر کی سیاست کی بنیاد اکثریت کی حکمرانی کا اصول تھی جب انگریزوں نے اس اصول کااعلان کیا تو ان کے ذہن میں ایک طویل المعیاد مقصد کی حیثیت سے ہندوستان پر ہندو کی حکمرانی قائم کرنے کا خیال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے یہ الفاظ کہے تھے کہ مسلم اکثریت پر مشتمل آئین ساز اسمبلی اس کے علاوہ اور کیا فیصلہ کرے گی یہ الفاظ برمحل اور مستقبل میں اسلامی مملکت کے قیام کے مفہوم کے حامل تھے۔ اس لئے جب قائداعظم نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشترک پاکستانی شہریت کا ذکر کیا تھا تو ان کے اس اعلان سے مسلم اکثریت بے اثر نہیں ہو جاتی تھی بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کے حقوق مساوی ہوں گے۔ اور ان کی ذمہ داریاں بھی مساوی ہوں گی بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی مملکت کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے سلسلہ میں مسلمانوں کا حق بدستور برقرار اور ناقابل تنسیخ تھا یہ وہ فضا اور انداز تھا جس میں آئین ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کی تھی۔ اس لئے قائداعظم پر تحریک پاکستان سے انحراف کا الزام تو کجا ان کی نیت پر شبہ کے شائبہ کی بھی گنجائش نہیں۔