(نسیم الحق زاہدی)
اللہ تعالیٰ نے صنف نازک کوبے شمار خوبیوں سے نوازا ہے،جذباتی فطرت کی وجہ سے یہ جلد بہکاوے میں آجاتی ہے،مغرب نے عورت کی اسی کمزوری کا ناجائز فائد اٹھا کر ہمیشہ اس کا استعمال اور استحصال کیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم اقوام نے عورت پر جس قدر ظلم وستم روا رکھے ہیں،شاید اپنے معاشرے کی کسی اور صنف پر اتنے مظالم انہوں نے نہ ڈھائے ہوں۔کہیں اسے میراث سے محروم کیا گیا،کہیں اسے اپنے شوہر کی چتا میں جلایا گیا،کہیں اسے سوسائٹی میں جانوروں سے بھی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ مغربی معاشروں میں آج بھی عورت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،اپنی دہشت،وحشت کو قائم رکھنے کے لیے معصوم بچوں کو قتل کروانا اور خواتین کو بطور ڈھال استعمال کرنا فراعین مصر کا شیوہ ہے۔آج بلوچستان میں،بلوچ قوم کے حقوق کا دعویٰ کرنے والے دہشت گرد وں نے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے خواتین کا استعمال کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ تو بلوچ ہیں اور نہ ہی مسلمان ہیں،وہ صرف دہشت گرد ہیں۔دشمن ممالک اور ان کے ایجنٹ ایک طویل مدت سے بلوچستان کے امن وامان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں،جن کا مقصد بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہیں،کیونکہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بلوچستان”گوادر“عالمی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے،الحمدللہ!بلوچستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب سے سی پیک کا معاہدہ ہوا امریکہ اور بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے ہیں۔امریکہ سمجھتاہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان داخلی طور پر مستحکم ہوگا بلکہ وہ اس کی دسترس اور اثر سے نکل جائے گا تو دوسری جانب چین کو بڑی اقتصادی قوت بننے سے روکا نہیں جاسکے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ نیوکلیئر پاور بننے کے بعد دفاعی حوالے سے وہ پاکستان کو چیلنج نہیں کرسکتا تو سی پیک پایہ تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان کی اہمیت وحیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا۔یہی وجہ ہے کہ امریکی آشیر باد سے بھارت اور افغانستان دہشت گردی اور شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں،اس پر جنرل حمید گل? نے سالوں پہلے بالکل درست فرمایا تھا کہ نائن الیون بہانہ،افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔ بھارت پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لیے علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کو اسلحہ اور فنڈز فراہم کرتا ہے جس سے دہشت گرد تنظیمیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلو چ اور سمی دین بلوچ جیسے اپنے سہولت کاروں کی وساطت سے بلوچ عوام کو ریاست کے خلاف من گھڑت،بے بنیاد پراپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کررہی ہیں،بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان نسل جن میں خواتین بھی شامل ہیں جن کو قومیت اور آزاد ی کے نام پر جذباتی کرکے خود کش بمبار بنایا جارہا ہے۔دہشت گرد تنظیمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہیں، انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ریاست انہیں،ان کے حقوق نہیں دے رہی۔پھر ان نوجوانوں کو بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم،ملازمت اور نیشنلٹی جیسے جھوٹے خواب دیکھا کر اپنے ساتھ شامل کرلیا جاتا ہے،اورانہیں پہاڑوں پر موجود دہشت گردی کے کیمپوں میں تربیت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، دوسری طرف دہشت گردوں کی پراکسی، نام نہاد بلوچ یک جہتی کمیٹی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،سمی دین بلوچ جیسے ملک دشمن عناصر ان دہشت گردوں کو ”لاپتہ“افراد کا ٹائٹل دیکر ان کی خواتین کو یہ بتاکرکہ ان کے پیاروں کو ریاست نے جبری گمشدہ کیا ہے،اس منفی پراپیگنڈا کے ذریعے گمراہ کرکے سٹرکوں پر لے آتیں ہیں۔جہاں احتجاج اور دھرنوں میں ان خواتین کے ہاتھوں میں اپنے عزیز اوقاب کی تصاویر اور ریاست مخالف پلے کارڈ پکڑا کر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ اور فنڈنگ حاصل کی جاتی ہے،اور ساتھ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ خدانحواستہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے۔ایسا کرنے کے لیے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،سی دین بلوچ جیسے ایجنٹ، دشمن ممالک سے لاکھوں ڈالرز وصول کرتے ہیں۔میں اپنے متعدد کالمز میں ان حقائق کو تحریر کرچکا ہوں کہ ”مسنگ پرسن“کے نام پر دئیے جانے والے دھرنے،احتجاج درحقیقت نئے دہشت گردوں کے لیے بھرتی سنٹرز ہیں جہاں پر دہشت گرد تنظیموں کے سہولت کار نوجوانوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے مظالم کے حوالے سے جھوٹی کہانیاں سنا کر گمراہ کرتے ہیں،ان کی اس حد تک برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کے خون بہانے کو جہاد سمجھنے لگ جاتے ہیں۔احتجاج کے نام ملکی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے،توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے بے گناہ افراد کا قتل کیا جاتا ہے،جس طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں کئی بے گناہ افراد کے ساتھ ساتھ کئی سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو بھی شہید کیا گیا۔ریاست جب دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو ان کے سہولت کار خواتین کو ڈھال بناکر ریاست کو بلیک میل کرتے ہیں۔دہشت گرد تنظیمیں یہ جانتی ہیں کہ ریاست پاکستان اور ریاستی ادارے ہمیشہ خواتین کا احترام کرتے ہیں،اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بزدل خواتین کو فرنٹ پر رکھتے ہیں۔خواتین یہ کب سمجھیں گی کہ ان کے پیچھے چھپ کر وار کرنے والے ان کے حقوق کے محافظ نہیں ہوسکتے۔ دہشت گرد تنظیموں نے خواتین کو قومیت کے نام پر جذباتی کرکے،انہیں بلیک میل کرکے خود کش بمبار بناکر ان کی دنیا وآخرت تباہ کی اورکئی نسلوں کو بربادکیا ہے۔اپنے مذموم مقاصد کے لیے بے گناہ بچوں،بوڑھوں اور خواتین کا قتل کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی صورت بلوچ عوام اور بلوچستان کی خیر خواہ نہیں ہوسکتی۔بلوچستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے بہادر مرد دوسری اقوام کی خواتین کی حفاظت کرتے تھے،آج عورت کے آنچل کے پیچھے چھپ کر دہشت گردی کو انجام دینے والے بہادر نہیں بلکہ بزدل ہیں۔خواتین کو اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرنا اور ان کا استحصال کرنا مغربی معاشروں کی ریت ہے،دور حاضر میں یورپ،امریکہ اور دوسرے تجارتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جو صرف اور صرف تجارتی اشیا کی خرید وفروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اور آج بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں خواتین کو بطور ڈھال استعمال کررہی ہیں۔دین اسلام میں عورت کو اتنا اونچا مقام مرتبہ حاصل ہوا ہے جو اسے پہلے کسی ملت میں حاصل نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی امت اسے پاسکی،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری ماو¿ں،بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہی سے بچائے۔آمین۔