حکیم راحت نسیم سوہدروی
Hknasem@gmail.com
قائد اعظم محمد علی جناح ایک ہمہ جہت اور عہد افرین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ جغرافیہ کا رخ موڑ کر تاریخ کا دھارا بدلنا اور اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان کا قیام ہے۔ انہوں نے بیک وقت انگریز سرکار اور ہندو اکثریت سے جنگ لڑی اور خالصتاً آئینی و جمہوری ذرائع سے بغیر کسی اسلحہ یا فوج کے یہ جنگ جیتی اور ایک بار بھی جیل نہیں گئے۔ ان کا منفرد اور عظیم کارنامہ دیکھ کر دنیا بھر کے مفکر، دانشور اور سیاستدان حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور ان کی راست فکری، اصول پسندی، مستقل مزاجی کے قائل ہو کر عظیم راہنما تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
قائد اعظم کی ذات صوری اور معنوی خوبیوں کا مرقع تھی۔ عزم صمیم اور قوت ارادی کے پیکر تھے اور اصولوں پر سمجھوتا کرنا سیکھاہی نہیں تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں جھکا سکتی تھی نہ خرید سکتی تھی۔ وہ کہ ایک بلند پایہ قانون دان اور بالغ نظر سیاستدان تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وہ مسیحا تھے۔ انہوں نے مسلمان قوم کو مملکت پاکستان کی صورت 14 اگست 1947ءبمطابق 27 رمضان المبارک ،جمعتہ الوداع، شب قدر اور نزول قران کی مبارک ساعتوں میں پاکستان کا تحفہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم انہیں قائد اعظم کے لقب سے پکارتی ہے۔ قائد اعظم نے سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے۔ ہندو کے تعصب اور عزائم نے ان کو کانگریس سے الگ ہونے اور مسلمانوں کو متحد و منظم کرنے پر مجبور کر دیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ 1937ءکے لکھنو سیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ کو عوامی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا 23 مارچ 1940 ءکو مطالبہ پاکستان کو منزل بنایا اور صرف سات سال کے عرصے میں 14 اگست 1947ئ و پاکستان حاصل کر لیا۔ وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ کارواں منزل پر پہنچ چکا تھا۔ میر کارواں تھک کر چور ہو چکے تھے۔ تھکا دینے والی جدو جہد نے انہیں صحت سے غافل کر دیا تھا اور وہ 11ستمبر 1948کو خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ میر کارواں کی خوبیوں سے مزین تھے۔ وہ کھوکھلے نعروں کی بجائے حقیقت پسندی پر زور دیتے تھے۔ ان کی کی شخصیت کا اعتراف صرف اپنوں بلکہ غیروں نے بھی کیا اور عظیم راہنما قرار دیا۔
ایل ایف پش ولیم غیرمنقسم ہندوستان میں مختلف عہدوں پر فائز رہا۔ بعد میں بی بی سی اور دی ٹائمز لندن سے بھی وابستہ رہا۔ اپنی کتاب سٹیٹ آف پاکستان میں رقمطراز ہے۔
میرے دوست بضد ہیں کہ جب برطانیہ مشکل میں تھا تو اس نے تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کانگریس کے مقابل مسلم لیگ کی پشت پناہی کی جس میں مسٹر جناح آپ کا آلہ کار بنا اس تھیوری کے خلاف دلیل یہ ہے کہ جو شخص مسٹر جناح کو جانتا ہے وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ "وہ زندگی میں کسی کا آلہ کار نہیں بنا"آگے چل کر وہ کہتا ہے۔
"کانگریس کی مکاری کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد اعظم نے تمام معاملات اتنی عقلمندی اور مہارت سے نپٹائے کہ کانگریسی راہنما بھی پاکستان کے قیام اور تقسیم ہند کوبڑی تباہی سے بچنے کی امید سمجھنے لگے۔'' فیلڈ مارشل سرکلا ئیڈ آرکٹیکٹ کہتا ہے۔"
"میں جناح کا بڑا مداح ہوں۔ وہ زبردست شخصیت کے مالک تھے۔ اور دھن کے پکے تھے۔ کوئی چیز ان کی غیر معمولی قوت ارادی کو دبا نہیں سکی۔"
معروف دانشور اور جناح آف پاکستان کے مصنف اسٹیلے والپرٹ کہتے ہیں۔ بلاشبہ جناح ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اور وہ برصغیر کے سب سے بلند قانونی دماغ تھے۔ اگر چہ نہرو بھی قانون دان تھے مگر وہ جناح کے برعکس قانونی باریکیوں کو کم ہی سمجھتے تھے۔ جناح کی خوبی یہ تھی کہ وہ جب کوئی فیصلہ کر لیتے تو اس پرسختی سے کاربند ہو جاتے۔“
چین کی معروف شاعرہ لو ہنگ کہتی ہیں جو ان کی نظم کو پہلا شعر ہے
جناح! اے مقار مت جہاد اور انقلاب کے نشان
جسے صحرا کے خانہ بدوش بھی پہنچانتے اور گنگا کے کناروں پر بسنے والے بھی جانتے تھے۔
جناح! روح انسانی تجھ کو کبھی بھول نہ پائے۔
مسٹر مائیگٹو قائد اعظم کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے۔ سب راہنماوں کے ساتھ مسٹر جناح مجھ سے ملے۔ وہ ابھی جواں ہیں اور آداب محفل سے پوری طرح ا?شنا۔ ان سے ملنے والا چہرے مہرے سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے ان کا منصوبہ مکمل طور پرتسلیم کر لیا جائے میں جناح کی بحث سن کر تھک گیا اور میں نے ان کو ڈرانے کی کوشش کی مگر خود الجھ کر رہ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ جناح انتہائی قابل شخص ہیں۔
مزید کہتا ہے:۔
مسٹر جناح ایک صاف ستھرا، انتہائی با سلیقہ نو جواں ہے جس کی چال ڈھال دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔گفتگو کے منطقی داﺅ پیچ کا ز بر دست ماہر اور اپنی بات منوانے کے فن کو جانتا ہے۔ وہ اپنی بات کی ترمیم کا روادار نہیں ہے۔ میں ان سے باتیں کر کے ہار گیا۔''
لارڈ ماونٹ بیٹن:۔
"جناح کی شخصیت بڑی نمایاں اور ممتاز تھی۔ چٹان کی طرح محکم سخت اور اس کے ساتھ انتہائی ٹھنڈے دل ودماغ کا انسان اگر وہ کوئی سمجھوتہ کرتا تھا تو جھک کربزدلانہ انداز میں نہیں، مردانہ وار سمجھوتہ کرتا تھا۔"
لارڈ اردن:۔
مسٹر جناح اپنے اردوں اور اپنی رائے میں بڑے سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لچک نہیں۔ وہ مسلم قوم کے مخلص را ہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں۔
سر ونسٹن چرچل:۔
جناح ایک بہترین سیاست دان ہیں۔ وہ ذہین فطین ہیں مسلمانوں کے اس راہنما کو میں ساری زندگی کبھی دل سے فراموش نہیں کر سکتا۔
گوپال کرشن گو کھلے:۔
جناح میں سچ کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ فرقہ واریت سے آزاد ہیں۔ ہندوستان کو جب بھی آزادی نصیب ہوگی وہ جناح کی بدولت ہے ایک وقت آئے گا کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے قاصد بنیں گے۔ اس لیے کہ وہ بے شمار صلاحیتوں کے حامل ہیں۔
جواہر لال نہرو:۔
انسان کا قیمتی سے قیمتی سرمایہ یہی ہے کہ وہ اعلیٰ کردار کا مالک ہو اور عمدہ سیرت رکھتا ہو۔ مسٹر جناح کی شخصیت اعلیٰ کردار کا نمونہ تھی۔ جس کے ذریعے زندگی کے ہر معر کے کو سر کیا۔
مسز سروجنی نائیڈو:۔
قسمت کا دھنی انسان جو اچانک غیر متوقع حالت کا شکار ہو گیا تھا محض اپنی جرات و او العزمی کے بل بوتے پر دنیا کو مسخر کرنے نکل کھڑا ہوا ہے مسٹر جناح کے متعلق خواہ کوئی بھی رائے قائم کی جائے لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ مسٹر جناح کو کسی قیمت پر خرید انہیں جاسکتا۔
ماسٹر تارا سنگھ:۔
قائد اعظم نے مسلمانوں کو ہندوں کی غلامی سے بچایا۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی۔
مسزوجے لکشمی پنڈت:۔
اگر مسلم لیگ میں ایک سوگا ندھی ہوتے اور ان کے مقابل کانگریس میں ایک جناح ہوتا تو ملک تقسیم نہ ہوتا۔
مسولینی:۔
قائد اعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہوگی کہ وہ ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں جو کہیں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔
مہاتما گاندھی:۔
قائد اعظم بلا شک وشبہ اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ سیرت وکردار کی بلندیوں پر تھے۔ جہاں کوئی لالچ، خوف یا غصہ انہیں اپنے راستے سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ وہ عزم واستقامت کا کوہ گراں تھے۔ نہ امارت نہ ثروت ان کی راہ میں حائل نہ حکومت کا جاہ جلال انہیں مرغوب کر سکا۔ انہیں مسلم عوام پر بے پناہ قابو حاصل تھا۔ میں جناح کی یکسوئی، اعلیٰ قابلیت اور مستحکم کردار کا احترام کرتا ہوں۔ بلاشبہ انہیں کوئی نہیں خرید سکتا۔
قائد اعظم کی شخصیت اور کردار بارے دنیا کے نامور افراد کی آرا بالا میں سامنے چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ عزم وعمل، دیانت و امانت، خودی خوداری کا مرقع تھے ان کی شخصیت میں ہر دم گرم اور جان بے تاب کا لاوا ابلتا رہتا تھا۔ ان کی ذہانت، فطانت اور صلاحیت کا حامل کوئی اور نہ تھا۔ کبھی کبھی میٹھی تلخیاں کرتے تھے۔ ایک بار گاندھی نے ان سے کہا آپ نے مسلمانوں پر مسمریزم کر دیا ہے۔
جناح نے برجستہ جواب دیا۔ ”جی اور آپ نے ہندووں پر ہپناٹزم کر دیا ہے۔ اس طرح دونوں راہنماء اخباری رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کے ہجوم کے سامنے آئے تو گاندھی نے جناح سے پوچھا انہیں دیکھ کر آپ دل میں خوش تو ہوتے ہوں گے؟ جناح نے کہا جی میں ضرور خوش ہو امگر آپ سے کم ان دونوں راہنماوں کے انداز فکر و نظر میں ہمیشہ اختلاف رہا اور یہ ان کی فقرہ بازی سے ظاہر ہو جاتا ہے۔
کراچی کے ایک پارسی میر جمشید نوشیرواں نے کہا۔
ان کی یاد بڑی دلکش ہے۔ انہیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔ جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم ا?میز اور باوقار تھے۔ ان کی زندگی تنہا تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست تھے ایک دن مجھ سے کہا کہ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے مسلمان اقلیتوں سے رواداری برتیں۔ میں نے دو موقعوں پر انہیں روتا دیکھا۔ تقسیم ہند کے بعد میں مہاجر کیمپوں کے دورے پر پہلی مرتبہ پھر1928 میں کلکتہ کانفرنس میں جب انہوں نے مسلمانوں کی وکالت کی تو ایک شخص نے کہا کہ آپ کو مسلمانوں کی طرف سے بولنے کا حق نہیں کیونکہ وہ ان کے نمائندے نہیں ہیں۔ جناح کو اس سے بہت سبکی ہوئی اور وہ واپس چلے گئے۔ اگلی صبح واپس روانہ ہوئے تو ٹرین کے فرسٹ کلاس کے ڈبے میں دروازے پر کھڑے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا "جمشیدیہ افتراق کا آغاز ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں آنسووں سے تر تھیں۔ جن دنوں وہ لندن سے واپس ہندوستان آرہے تھے تو ان کے دفتر سے متصل دفتر کے انگریز وکیل ٹی ایم ولمیز اس کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔ جب جناح نے مجھے بتایا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ ان کے خوبصورت فرنیچر پر بہت سے وکلا کی نظر تھی جب ایک وکیل نے خریدنا چاہا تو جناح کا جواب تھا کہ مجھے لکڑی کے ان ٹکڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم یہ سب لے لو۔ میں ایک بہت بڑے مقصد کے لیے ہندوستان جا رہا ہوں۔"
دنیا نے دیکھا کہ قائد اعظم نے واپس آکر کس طرح مسلم قوم کو متحد کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر منظم کیا۔ قوم کا ہر طبقہ خواہ وہ انتہا پسند تھے یا اعتدال پسند، شیعہ تھے یاسنی، بریلوی تھے یا اہلحدیث۔ بلوچی تھے یا پٹھان، پنجابی تھے یا سندھی، بنگالی تھے یا مدراسی سب کے سب یک قوم ہو کر یک زبان ان کی قیادت میں منظم ہو گئے۔ قائد کی قیادت نے مردہ دلوں میں نئی روح پھونک دی تھی اور ان کی ساحرانہ شخصیت اپنی قوم کو زندہ رہنے کا درس دے رہی تھی۔ زمانہ گواہ ہے کہ قائد اعظم کی ولولہ انگریز قیادت کے بغیر پاکستان کا قیام ممکن نہ تھا۔ یوں ان کا شمار ان زعماء ومشاہیر سیاست میں ہوتا رہے گا۔ جنہوں نے اپنا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات پر نقش کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے سیاست دان، اہل علم وقلم قائد کی اس کامیابی پر حیران رہ گئے کہ انہوں نے کس طرح بیک وقت دو بالا دست قوتوں انگریز اور ہندو کے عزائم اور طاقت کا مقابلہ ا?ئینی ذرائع سے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے دانشوروں، سیاستدانوں نے انہیں بھر پور خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔ وہ برصغیرکے مسلمانوں کے مسیحا تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت جو تحفہ دیا۔ قوم ان کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہے۔
پھر تری قیادت کو ترستا ہے زمانہ