معاشی ترقی اصل خوشحالی کا نشان 

Sep 11, 2024

ثاقب حسن لودھی

ثاقب حسن لودھی 
Saqiblodhi@gmail.com

 اس حقیقت سے انکار نہیں کہ روز بروز دنیا کے سیاسی و معاشی حالات بدل رہے ہیں۔ امریکا سے لیکر برطانیہ اور بھارت سے لیکر پاکستان تک انتخابات کا موسم ہے جس میں حکمران جماعتوں کو مختلف نوعیت کے سیاسی و معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں وزیر اعظم نریند ر موودی کو واضح برتری حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر بمشکل حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس آئندہ پانچ سال میں حکومت کو قانون سازی میں ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ دوسری جانب برطانیہ میں لیبر پارٹی 14 سال بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کیر اسٹارمر نئے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں جو سیاسی اعتبار سے اپنے پیشروں سے قدرے مختلف ہیں۔ انہیں بھی بیروزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا ہو گا جس سے ماضی قریب میں برطانیہ میں سیاسی افراتفری میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسٹارمر ملحد ہیں اور یہودی نظریات سے متاثر ہیں۔ ایسے میں تارکین وطن کے لیے مسائل بڑھ سکتے ہیں تو دوسری جانب برطانیہ میں مقیم مسلم کمیونٹی کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے جو پہلے ہی اسلام فوبیا جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ 
دوسری طرف نظر دوڑائی جائے تو امریکا کے آئندہ انتخابات اس کی سیاسی و معاشی بالادستی کا فیصلہ کریں گے۔ ایک طرف صدر جوبائیڈن ہیں تو دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہوں نے آخری انتخابات میں اپنی شکست کے بعد انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر امریکی جمہوری چہرے کو بے نقاب کیا تھا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس بار صدارتی انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ ہو گا کیونکہ پہلے انتخابی مباحثے میں صدر جو بائیڈن اپنے حریف پر سبقت لے جانے میں مکمل ناکام نظر آئے۔ اسی مباحثے کی عوامی ریٹنگ کے بعد سابق صدر باراک اوباما اور بل کلنٹن صدر جو بائیڈن کے لیے میدان میں آئے جن کا مقصد امریکی صدر کی گرتی ساکھ کو بچانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اگر ٹرمپ کو شکست ہوتی ہے تو بائیڈن کس طرح انتخابات کی غیر جانبداری کو ثابت کریں گے۔ ان تمام حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک اس بدلتی صورتحال میں معاشی عدم استحکام کا شکار نہیں ہو سکتا جس کی واضح مثال ان تمام ممالک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجود معاشی ہم آہنگی ہے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود انسانی ترقی کے لیے بھارت، برطانیہ اور امریکا جیسی طاقتوں میں یکسوئی پائی جاتی ہے جو اپنی خارجہ پالیسی کا محور عوام کی ترقی کو ہی سمجھتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستانیوں کے لیے سبق موجود ہے جو بے روزگاری ، دہشت گردی ، سیاسی عدم استحکام ، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ دنیا یہ سیکھ چکی ہے کہ عوامی فلاح و ترقی اور معاشی استحکام ہی اصل ترقی ہے۔ جب تک ہم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہوں گے تب تک آئی ایم ایف ڈکٹیٹ کرتا رہے گا۔ حال ہی میں کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات یا جنگ کرنے کے حوالے سے حکومت پاکستان اور اپوزیشن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہم اب تک اس چیلنج کو سمجھ نہیں سکے۔ یہ چیلنج پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے جس سے ملکی معیثت کا اہم تعلق ہے۔ آپریشن عزم استحکام پر متفقہ لاءعمل اپنانا ملکی ضرورت ہے تا کہ کم از کم اس چیلنج کی فوری بیخ کنی ہو سکے۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا اور روزمرہ اشیاءکی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور کم از کم 25 سال کے لیے ایک معاشی روڈمیپ پر اتفاق کیا جائے۔ اس کے لیے پڑوسی ممالک سے تناو کو ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ سی پیک جیسے اہم منصوبے کو بروقت مکمل کرنا اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچانا بے حد اہم ہے ورنہ اس بات کا احتمال ہے کہ پاکستان کی اس ناگفتہ بے صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر معاشی قوتیں اپنا سرمایہ منتقل کر لیں گی ۔ اس وقت پاکستان کو فوری جاندار فیصلوں کی ضرورت ہے ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ( صاحب مضمون نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سکالر ہیں )

مزیدخبریں