سادگی شفقت شرافت قناعت اور صبر و برداشت کی پیکر ،مادر جمہوریت کلثوم نواز کی چھٹی برسی۔

سید ولی شاہ آفریدی 
pmlnfata99@gmail.com
مرحومہ لاہور میں ڈاکٹر حفیظ بٹ جو کہ حافظ قرآن تھے کے ہاں پیدا ہوئی۔ 
میاں محمد نواز شریف کی پہلی تقریر کلثوم صاحبہ نے لکھی تھی۔
والد کی اسلامی اقدار سے محبت نے کلثوم کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے اور تین بار خاتون اوّل رہنے کے باوجود سادہ زندگی گزاری۔
 محترمہ بیگم کلثوم نواز 1950 ءمیں لاہور کے کشمیری گھرانے میں ڈاکٹر حفیظ بٹ کے ہاں پیدا ہوئیں،ڈاکٹرصاحب حافظ قرآن اور دین دار شخصیت تھے،کلثوم نواز کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی اور بچپن ہی سے اسلامی تعلیم حاصل کی، ابتدائی تعلیم مدرسہ البنات سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے میٹرک لیڈی گریفن سکول سے کیا،میٹرک کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج سے پری میڈیکل جبکہ ایف سی کالج سے بی ایس سی اور پنجاب یونیورسٹی سے اردو آدب میں ماسٹر کیا۔ بیگم کلثوم کی 2اپریل 1971 ءکو محمد نواز شریف کے ساتھ شادی ہو ئی۔ شادی کا یہ بندھن دونوں کے لئے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ اس بندھن میں بندھتے ہی محمد نواز شریف پرکامیابی اور ترقیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔محمد نواز شریف اور کلثوم نواز کے دوبیٹے حسین، حسن اور دوبیٹیاں مریم اور آسماء ہیں۔ 1981 ءمیں پہلی مرتبہ جب محمد نواز شریف وزیر خزانہ بنے تو تقریر بیگم کلثوم نوازصاحبہ نے لکھی تھی اس کے بعد بھی تقریریں بیگم صاحبہ لکھتی تھیں اور اس کے بعد میاں صاحب کو ریہرسل بھی کرواتی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز کو تین مرتبہ خاتو ن اول بننے کا اعراز حاصل ہے۔محمد نواز شریف سے شادی کے بعد اور تین بار خاتون اول رہنے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ شفقت، محبت،شرافت، قناغت،سخاوت،تحمل اور برداشت مرحومہ کی زندگی کی قیمتی اثاثہ تھے۔ حاجت مندوں کی مالی معاونت کرتی تھیں۔بیگم کلثوم نواز کے سیاست میں آنے کا فیصلہ ان کے سسر میاں محمد شریف کا تھا اور ان کا یہ فیصلہ درست اور دوراندیش ثابت ہو ا۔ کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
12اکتوبر 1999 کو جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے منتخب حکومت پر شپ خون مارا اور اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو خاندان سمیت نا صرف نظر بند کیا گیا بلکہ ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کرکے انہیں سزائیں بھی دلوائی۔ یہ وہ دور تھا جب ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے نیب کے ذریعے مسلم لیگ سے ہم خیال لیگ بنائی جس کے بعد مسلم لیگ کے اہم لیڈر اپنے قائد محمد نوازشریف کا ساتھ چھوڑکر ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے اور ہم خیال لیگ میں شامل ہوگئے۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا خیال تھا کہ محمد نواز شریف کی سیاست کو ختم کردیا گیا ہے لیکن یہ اس وقت ان کی ہم خیالی ثابت ہو ئی جب بہادر خاتون بیگم کلثوم نواز کو جون 2000?ءمیں مسلم لیگ (ن) کا قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔محمد نواز شریف کے وفادار ساتھیوں نے کلثوم نواز کا بھر پور ساتھ دیا اورہر قسم کی مشکلات برداشت کرکے جیلیں بھی کاٹیں لیکن اپنے قائد محمد نوازشریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا۔جب ڈکٹیٹر کی ایماءپر محمد نواز شریف کو سزائیں دلوائی گئیں تو ان انتقامی کارروائیوں کے خلاف کلثوم نواز نے لاہور سے تحفظ پاکستان ریلی نکالی۔ماڈل ٹاو¿ن لاہور میں پولیس نے  انکی گاڑی کو کرین کے ذریعے اٹھایا اور انہیں ریلی کی اجازت نہیں دی۔ بیگم صاحبہ کئی گھنٹے تک شدید دھوپ میں گاڑی میں محصور رہیں لیکن آمریت کے خلاف گھٹنے نہیں ٹیکے اور پورے ملک میں بیگم صاحبہ کا والہانہ استقبال کیا گیا۔لاہور کے چودھری برادران نے انکا ساتھ دینے سے انکار کیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئے۔ اس دوران خود کو فرزند پاکستان کہنے والے شیخ رشید نے بھی محترمہ کو اپنے گھر لال حویلی میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے سے معذرت کی۔ ایسے حالات میں جب روالپنڈی میں ان کا پروگرام کرانے کو کوئی تیار نہیں تھا تو پنڈی کے مرد مجاہد چودھری تنویر نے بیگم صاحبہ کو اپنا گھر پیش کردیا اور آمر کے خلاف جلسہ کیا جس کی پاداش میں انہیں نیب کے ذریعے گرفتار کیا گیا اور دوسال تک قید وبند کی سزا کاٹی۔گوجر خان میں چوہدری محمد ریاض نے بیگم صاحبہ کا تاریخی استقبا ل کیا اور ان کی رہائش گا ہ پر جلسے سے خطاب کیا چو ہدری تنویر اور چوہدری محمد ریاض کے کامیاب جلسوں کے بعد بیگم صاحبہ کی حوصلے بڑھ گئے۔بیگم صاحبہ کیساتھ سخت وقت میں مخدوم جاوید ہاشمی اور بیگم تہمینہ دولتانہ نے بھر پور ساتھ دیا۔ جب دسمبر میں کلثوم نواز اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پشاور گئیں تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر پیر صابر شاہ نے بیگم صاحبہ کا فقید المثال استقبال کیا۔کلثوم نواز صاحبہ نے خود اپنی کتاب ”جبر وجمہوریت“ میں صفحہ نمبر33میں تحریر کیا ہے 7دسمبر کو پشاور گئی صابر شاہ اور سرانجام خان کی طرف جانا ہوا۔ ان دونوں کے ثابت قدم رہنے کے عزم نے مجھے بڑا حوصلہ دیا جب مسلم لیگ سرحد کے اجلاس میں صابر شاہ نے میرے سر پر دوپٹہ رکھنے کی پختون رسم ادا کی تو اس وقت انہوں نے کہا کہ ہم نے سر پر دوپٹہ رکھ کر مرنے کی قسم کھائی ہے۔ ان تمام افراد کا جذبہ اور عمل میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔ راقم الحروف کا بھی اس وقت بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوئی تھی، وہ نہایت عاجز، شریف اور ملنسار خاتون تھیں بیگم صاحبہ نے پورے ملک میں مشرف آمر یت کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کے لئے لاہور سے چاغی کا سفر کیا۔چاغی کا راستہ ویران اور دشوار گزار بھی تھا،سخت گرمی کا موسم تھا،چاغی کے صحرائی اور پہاڑی علاقے میں آگ برس رہی تھی لیکن اس کے باوجو د لوگوں نے ہر جگہ پر بیگم صاحبہ کا استقبال کیا اور حکومتی رکاوٹوں کے باوجود بھی لوگ بیگم صاحبہ کے استقبال کیلئے چاغی پہنچے تھے۔ 
جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو نااہل کر دیا اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست NA-120سے بھی محروم کر دیا گیا تواس کے بعد بیگم کلثوم صاحبہ کو NA-120سے الیکشن لڑنے کیلئے سیاست کی میدان میں اتار دیا گیا اور ان کی بیٹی مریم نواز نے انکی انتخابی مہم چلائی جس کے نتیجہ میں بیگم صاحبہ الیکشن جیت گئیں۔ بیگم صاحبہ علیل ہو نے کی وجہ سے لندن میں زیر علاج تھیں۔ وہ لندن کے ہارلے سٹریٹ کے کلینک میں کینسر کے خلاف طویل جنگ لڑ رہی تھیں۔ محمد نواز شریف اور فرمانبردار بیٹی مریم نواز اور بیٹے حسین نواز اور حسن نواز بھی ہسپتال میں بیگم صاحبہ کی تیمارداری میں مصروف تھے لیکن جب احتساب عدالت نے محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کے خلاف سزا کا فیصلہ سنایا تو محمد نواز شریف اور مریم نواز نے بیگم صاحبہ کو سخت بیماری کی حالت میں وینٹی لیٹر پر لندن میں چھوڑ کر وطن واپس آئے اور جیل گئے۔جوانمردی اور بہادری کے ساتھ جیل کی صغوبتیں برداشت کرتے رہے۔محمد نواز شریف کو زندگی سے بڑا دکھ یہ پہنچا کہ انہوں نے اپنی بیمار بیگم کے ساتھ زندگی کا آخری عشرہ گزارنے کا موقع نہیں ملا۔11ستمبر 2018?ءکو لند ن میں بیگم کلثوم نواز خالق حقیقی سے جا ملی۔ مرحومہ کو جاتی عمرہ رائے ونڈ لاہور میں میاں محمد شریف مرحوم کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ بیگم کلثوم نواز کی چٹھی برسی 11 ستمبر کو انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جائے گی۔لیگی کارکنوں کی جانب سے ان کی مغفرت اور بلند درجات کیلئے قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن