کچھ باتیں معاشی ،عدالتی اور سیاسی نظام سے متعلق

ٹی ٹاک 
طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

بابا نیکو نے کہا معاشی عدالتی اورسیاسی نظام کا اس وقت جتنا برا حال ہے۔ایسے کبھی پہلے نہ تھا۔ یہ حالات ایک دن میں نہیں ہوئے۔ ان کو خراب کرنے برا بنانے میں عرصہ لگا۔ ہم خود اور اس کے ساتھ ہمارا دشمن بھی ہمیں اس نہج تک لانے میں ہمارا ساتھ دیتا رہا ہے۔ کیا ہمیں حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کے رزلٹ کیا ہونگے؟ قدرت بھی ان کرتوتوں کی وجہ سے خوش نہیں ہے۔ اکثر امیر اور غریب سب کے کرتوت یکساں ہیں۔ سبھی محبان کرپشن ہیں۔ سبھی جھوٹ بولتے ہیں ہم سب اسلام ، قانون اور آئین سے دور ہی نہیں بہت دور ہیں۔ اسلام کی رسی کو ہی مضبوطی سے تھام کر چلتے رہتے اور انصاف کا ترازو ٹھیک رکھتے تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ اسلام کی باتوں کو غیروں نے اپنالیا۔ ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور اور انصاف کا درس ہمارے اسلام نے دیا تھا جسے ہم نے نہیں اپنایا غیر مسلم ممالک نے اسے اپنایا اور وہ اب ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں۔بابا نیکو نے پوچھا جو کچھ آپ لکھتے ہیں کیا کسی ادارے نے کبھی کوئی ایکشن لیا۔ کہا وکیل لیڈر احسن بون نے میرا کالم مورخہ 29.08.24 کا کالم عنوان وزیر داخلہ صاحب راستے بند نہ کریں۔میرا یہ کالم وزیر داخلہ جناب محسن نقوی کو ارسال کیا تھا جس کا تفصیلی جواب احسن بون صاحب کو دے چکے ہیں۔ امید ہے وکلا کے ہوٹل کا راستہ پیدل وکلا کے لیے جلد کھل جائے گا۔ کوئی زمانہ تھا جب کالم خبر اخبارات کی ذینت بنتے تو اس پر ایکشن ہوتا تھا مگر اب ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ اب تو اپنے حصہ کی شمع روشن کرنے کی عادت سی بن چکی ہے۔ بابا نیکو نے کہا حکومتی اداروں میں کام کرنے والے اکثر جب یہاں سے ریٹائر ہوتے ہیں تو پنشن مراحات لیتے ہیں۔دوران سروس جو کرپشن کرتے ہیں وہ دولت سمیت کر باہر لے جاتے ہیں۔ پہلے سے ان کے بچوں کی تعلیم ان کا بزنس فارن میں سیٹل ہو چکا ہوتا ہے۔دھرتی جسے ماں کہتے ہیں جو غربت میں انہیں پالتی ہے یہ جوان ہو کر اس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہیں اور چھوڑ کر فارن چلے جاتے ہیں۔جب کہ دشمن کے ملک میں کوئی ایسا نہیں کرتا وہاں کوئی سرکاری ملازم اپنے اداروں کو اس بے دردی سے لوٹتا نہیں۔ وہ ریٹائر ہو کر اسی ملک میں رہتا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں ریٹائر ہوکر وہی ملک میں رہتا ہے جسے دوبارہ جاب ملتی ہے۔ ورنہ فیملی سمیت فارن کا رخ کرنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ ہم رشوت کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ دشمن ہمارے اداروں میں گھس چکا ہے۔ اپنی مرضی سے اداروں کو چلاتا ہے۔ اداروں کو بدنام کر رہا ہے۔مشہور یہ کر رکھا ہے کہ ملکی ادارے اپنے ملک کے باشندوں کو غالب کروا دیتے ہیں ایسا کرنے پر پھر احتجاج ہوتا ہے۔ عدالتوں میں کیس لگتے ہیں کمیشن بنتے ہیں۔ رزلٹ صفر نکلتا ہے۔ ملک کی بدنامی ہوتی ہے انتشار پھیلتا ہے جن کو غائب کیا جاتا ہے ہو سکتا ہے یہ وہی لوگ ہوں جن کو اپ ملک دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ دشمن کا ساتھ دیتے ہونگے ان سے پیسے لیتے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔ کیا ان افراد کے لیے ملکی قانون موجود نہیں کہ ان پر ملک دشمن سرگرمیوں کی بنا پر مقدمات بنائیں جائیں اگر ایسا کوئی قانون نہیں ہے تو قانون سازی کی جائے۔ اگر قانون ہے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کریں ان کی فیملی کو بتایا جائے کہ اس جرم میں یہ جیل میں ہیں۔ان پر مقدمات چلائے جائیں پھر انہیں سزا دی جائیں۔ لیکن انہیں کسی کو بتا? بغیر اٹھا لینا، گم کر دینا یا مار دینا یہ سب غیر قانونی غیر انسانی حربے ہیں۔جو بھی ایسا کرتا ہے خواہ وہ سرکاری ملازم ہے وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ کوئی نوکری نہیں کرتا یہ تو اجرتی قاتل بن کر تنخواہیں لے رہا ہوتا ہے۔ لہذا ایسی نوکری جاب نہ کی جائے۔ ملک دشمن لوگوں کو پکڑ کر قانون کے حوالے کیا کریں۔ جو ایسا نہیں کرتے بابا نیکو کا کہنا ہے یہ خود قانون کی خلاف فرضی کرتے ہوئے شریک جرم ہوتے ہیں۔ اپنے گناہوں میں ایسا کر کے اضافہ کر رہے ہوتے ہیں اور ملکی حالات خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے گزارش یہی ہے کہ ملک دشمن عناصر کو غائب نہ کیا کریں۔ انہیں قانون کے حوالے کریں۔ قانون کے مطابق انہیں سزائیں دیں۔ یاد رہے اگر کسی کا جگر کا ٹکرا، رشتے دار عزیز مر جاتا ہے تو قدرت ان کو صبر دے دیتی ہے اور اپنے پیاروں کو بچھڑنے پر خود ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ مگر گم شدہ لوگوں کو انہیں بھولایا نہیں جا سکتا۔ انکھیں دیکھنے کو ترستی رہتی ہیں۔ دل مانتا نہیں۔ لہذا کوئی کتنا بھی شہری ملک دشمن ہو اسے قانون کے دائرے میں رہ کر اس کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہوئے اسے سزا دیں ،پھانسی دیں۔ پچاس پچاس لاکھ ایسی فیملیوں کو دینے کا اعلان کرنا جن کے عزیز غائب ہیں مگر انہیں کچھ بتا نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ انہیں پہلے سچ بتائیں کہ وہ مر چکے ہیں۔ دفن ہو چکے ہیں تانکہ وہ کھل کر رو لیں۔ پھر یہ پچاس لاکھ انہیں دیں۔رقم دینے سے پہلے ملنے کی امید کا چراغ بجھا دیں۔ جنھوں نے انہیں غیر قانونی طریقے مار دیا غائب کیا ہے انہیں سزائیں دیں کیونکہ یہ لوگ ملکی قانون پر نہیں چلے۔ تانکہ آئندہ اس راستے پر کوئی نہ چلے۔ نہ خود گناہگار ہوں اور نہ وطن کو بدنام کریں۔ نو مئی کو ملک دشمنی کا بہت بڑا واقع پیش آ چکا ہے اس روز وہ کچھ ہوا جو دشمن نہیں کر سکا۔تھا۔ انہیں سزائیں دیتے تو عوام خوش ہوتے سب جانتے ہیں کس نے کس کا ساتھ دیا لیکن کسی کو سزا نہیں ملی۔ اس کی وجہ ہمارا عدالتی اور سیاسی نظام ہے۔ جو ملک دشمنوں کو سزائیں دینے میں رکاوٹ ہے اگر ملزم اداروں سے زیادہ طاقتور ہے۔تو ایسے ملزم کو اس کے گھر کو ہی سب جیل قرار دے دیا کریں یہاں امیر اور غریب کا قانون ایک جیسا نہیں۔ امیر طاقت ور ملزم جیل میں پسند کے کھانے اور ایکسرسائز کرتا ہے۔ پھر رہا ہو کر وکٹری کا نشان بنا کر نکلتا ہے دراصل یہ لوگ پاکستان کے نظامِ عدل کا جنازہ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ سورہ الانعام میں اللہ حکم دیتا ہے کہ "انصاف کرو، چاہے اسکی زد میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ آجائے" وہ معاشرہ کبھی قائم نہیں رہ سکتا جس میں انصاف نہ ہو، آج آپ یورپ کو دیکھ لیجئے، وہاں کی ترقی اور خوشحالی دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے ، کیونکہ وہاں انصاف امیر اور غریب کیلئے برابر ہے۔ یہاں روٹی چور کو سالوں قید میں رکھا جاتا ہے اور اربوں کھربوں لوٹنے والوں نشہ کرنے والوں کو جیلوں میں مراحات دی جاتی ہیں۔ امیر جلد رہا ہو کر وکٹری کا نشان بنا رہے ہوتے ہیں اور غریب مقتولین کے گھروں پر قل خوانی ہو رہی ہوتی ہے۔ پلیز عدل ،سیاسی معاشی نظام کو درست کریں۔ جوڈیشری سیاسی فیصلے نہ کرے۔ بابا نیکو نے کہا اس وقت جوڈیشری میں چھٹیاں ہیں۔ ججز چھٹیاں منانے چین روس کا رخ نہیں کرتے امریکا جاتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ۔بابا نیکو نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باہر سیر وتفریح کرنے نہیں جاتے بلکہ اپنا اور اپنی فیملی کا فیوچر بنانے کو جاتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے پاکستان کے خوبصورت علاقے نہیں دیکھے ہوتے پہلے یہ تو دیکھ لیتے۔پھر امریکا کی یاترا کو جاتے۔ بابا نیکو نے کہا جب بھوک نگ ہوتی ہے تو یہ یہاں رہتے ہیں جب پیٹ اور جیبیں ان کی بھر جاتیں ہیں پھر یہ وہاں جاتے ہیں جہاں پیسہ پیسے کو کھنچتا ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...