قائد کی برسی 

جو دنیا میں آتا ہے اسے آخر کسی نہ کسی دن لوٹ کر واپس جانا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
 نہ ان کا کوئی نام لیوا ہوتا ہے نہ ان کو یاد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنی زندگی جیتے ہیں ان کو کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں اپنی زندگی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ نہ وہ اپنے لیے سوچتے ہیں نہ انھیں اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے مفاد کے لیے سوچتے ہیں اور عظیم مقصد کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم کا شمار بھی دنیا کی ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا، جنھوں نے اپنی زندگی عظیم مقصد کے لیے وقف کر دی۔ وہ مر کر بھی زندہ ہیں۔ اگرچہ وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے لیکن کروڑوں دلوں میں بستے ہیں، دن رات انھیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، ان کا احسان پاکستانی قوم قیامت تک یاد رکھے گی۔ آج اس عظیم قائد کی برسی ہے جس کی دور اندیشی نے مسلمانان ہند کو ایک علیحدہ وطن لے کر دیا۔ دشمن بھی ان کی فہم وفراست اور اصول پسندی کے قائل تھے وہ برملا کہتے تھے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قائد اعظم محمد علی جناح نہ ہوتے تو کبھی بھی پاکستان نہ بن سکتا۔ یہ قائد اعظم کی عظیم شخصیت تھی کہ وہ ایک دن جیل جائے بغیر اتنی بڑی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر گئے۔ انھوں نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی، وہ اپنے کردار کی وجہ سے عظیم تھے۔ قائداعظم کی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی وعدہ خلافی نہیں کی، کبھی اصولوں سے روگردانی نہیں کی، وہ وقت کے پابند تھے، انھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ وہ ساری زندگی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، پوری زندگی کمپرومائز نہیں کیا۔ انھیں قیام پاکستان کی جدوجہد سے ڈی ٹریک کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا تھا لیکن ان کے فولادی عزم کو کوئی بھی متزلزل نہ کر سکا۔ انھوں نے اپنی بیماری کو چپھائے رکھا کہ کہیں پاکستان کے قیام میں تاخیر نہ ہو جائے۔ انھیں پتہ تھا کہ انھیں تپ دق کا مرض لاحق ہے اس وقت تپ دق کا علاج ممکن نہ تھا اور یہ کینسر کی طرح خوفناک مرض تھا۔ اب تو کینسر کا بھی علاج ممکن ہو گیا ہے۔ قائد اعظم کے ایک معالج بمبئی کے ڈاکٹر پٹیل نے ان کا ایکسرے کیا جس میں ان کے پھیپھڑوں کی حالت واضح تھی۔ ڈاکٹر نے انھیں مکمل آرام کے لیے کہا کہ اس کا علاج صرف آرام ہے لیکن قائد اعظم نے فرمایا آپ اس راز کو راز ہی رہنے دیں اس ایکسرے کی کسی کو خبر نہ ہو۔
 چنانچہ ڈاکٹر پٹیل نے وہ ایکسرے اپنی الماری میں تالے میں رکھ لیا اور کسی کو نہ بتایا۔ وہ جب زیارت میں تھے اور لاہور سے آئے ہوئےڈاکٹر الہی بخش نے ان سے بیماری بارے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کا معدہ خراب ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو وہ جلد کام کرنا شروع کر دیں گے۔ ڈاکٹر الہی بخش نے جب بتایا کہ آپ کے پھیپھڑوں کا زیادہ مسئلہ ہے تو انھوں نے کہا ہاں مجھے علم ہے۔ لارڈ مونٹ بیٹن نے لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ قائد اعظم اتنی جلدی فوت ہو جائیں گے تو میں کبھی ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ بانی پاکستان کی عظیم جدوجہد اور فہم وفراست سے مسلمانان ہند ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن افسوس صد افسوس کہ قائد کو اس وطن کی تعمیر کا موقع نہ مل سکا۔ قائد کی رحلت کے بعد ہم معاملات کو نہ سنبھال سکے اور قوم آج تک بھٹک رہی ہے۔ 1947ءکے قبل ہم ایک قوم تھے لیکن ہمارے پاس وطن نہیں تھا آج ہمارے پاس وطن ہے لیکن ہم ایک قوم نہیں رہے ہم آج تک حصول پاکستان کی منزل حاصل نہیں کر پائے۔ آج ہم نے قائد کے پاکستان کا جو حشر کر دیا ہے اس سے قائد کی روح تڑپ رہی ہو گی۔ ہم نے اپنے کرتوتوں اور عاقبت نا اندیش فیصلوں کی وجہ سے پہلے آدھا ملک گنوا دیا پھر اپنے مفادات کی سیاست سے ملک کا وقار تباہ کر دیا۔ عام آدمی کی آذادی اور خوشحالی کا جو خواب قائد نے دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ہمارے حکمران قائد کے اصولوں کو بھول کر ذاتی خواہشات کے مطابق ملک کو چلاتے رہے۔ عام آدمی کا سوچنے کی بجائے اپنا مفاد سوچتے رہے۔ اور آج ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ دنیا میں ہماری شناخت ایک بھکاری قوم کی سی ہے۔ آج اس عظیم قائد کی برسی ہے جس کی زبان پر مرتے وقت بھی اللہ اور پاکستان کے الفاظ تھے۔ انھوں نے ان ہی دولفظوں کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھا اور اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ گئے۔ آج اس عظیم قائد کی برسی ہے جس نے اپنی تمام جائیدادیں پاکستان کے نام وقف کر دیں۔ آج اس عظیم قائد کی برسی ہے جن کے پسندیدہ باورچی کو پنجاب حکومت نے ڈھونڈ کر زیارت بھجوایا تو آپ نے فاطمہ جناح کو حکم دیا کہ اسے یہاں پہنچانے کے تمام اخراجات میری جیب سے ادا کیے جائیں۔ آج اس عظیم قائد کی برسی ہے جس نے اپنی کابینہ کو سرکاری خرچ سے چائے بھی نہیں پینے دی۔ آئیں آج اصولوں کے پاسدار قائد اعظم کی برسی کے موقع پر عہد کریں کہ ہم قائد کے پاکستان میں کسی کو کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے، سیاست قائد کے اصولوں کے مطابق ہو گی، ریاست پاکستان کو چلانے کا جو روڈ میپ قائد نے دیا تھا اس پر عمل کروائیں گے۔
 آج پاکستان جن مسائل سے دو چار ہے اس سے نکلنے کا واحد حل قائد اعظم کے رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔

ای پیپر دی نیشن