پاکستان نے قائداعظم کا خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہیں کیا؟

سات دہائیاں گزر چکی ہیں جب قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کی قیادت کی اور اپنی غیر معمولی بصیرت، عزم اور قیادت کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔ ان کا خواب صرف ایک خطہ زمین کے حصول تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو انصاف، مساوات، قانون کی حکمرانی اور شمولیت کی اقدار کی ترجمان ہو۔ قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بنے جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل کر سکیں اور ساتھ ہی دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی امن و سکون کے ساتھ ریاست کے مساوی شہری کے طور پر زندگی گزار سکیں۔تاہم، اگر ہم آج کے پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم کئی اہم پہلوو¿ں میں قائداعظم کے خواب کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں جمہوری اور شمولیتی ریاست کی بنیادیں بنانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اسکے بعد کا سفر مختلف چیلنجز کا شکار رہا ہے جنہوں نے پاکستان کو قائداعظم کے نظریات سے دور کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم قائداعظم کے خواب کو پوری طرح کیوں پورا نہیں کر سکے؟
ایک اہم وجہ پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک برقرار ہے۔ قائداعظم جمہوریت پر پختہ یقین رکھتے تھے اور نمائندہ حکومت کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ وہ جمہوریت کو ایک جدید ریاست کی بنیاد سمجھتے تھے جہاں عوام کی مرضی حکومت کو راہنمائی فراہم کرے۔ تاہم، پاکستان میں بار بار فوجی بغاوتیں، آمرانہ حکومتیں، اور کمزور جمہوری ادارے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالتے رہے ہیں۔ ان بار بار کے سیاسی مداخلتوں نے ایک مستحکم سیاسی فریم ورک کے قیام کو روکا ہے جو کہ قائداعظم کے خواب کی تکمیل کے لیے ضروری تھا۔ اس سیاسی عدم تسلسل نے سیاسی سرپرستی اور بدعنوانی کے کلچر کو بھی فروغ دیا ہے جس نے پاکستان کو انصاف اور احتساب کے اصولوں سے دور کر دیا ہے جو قائداعظم کے لیے اہم تھے۔
معاشی ناہمواری بھی قائداعظم کے خواب سے دور ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ قائداعظم عوام کی معاشی بہبود کے بارے میں گہری فکر مند تھے اور ایک مضبوط معیشت کی تعمیر کی ضرورت کو سمجھتے تھے جو نئے ریاست کو قائم رکھ سکے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سیاسی خودمختاری اور سماجی استحکام کے لیے معاشی خود کفالت ضروری ہے۔ لیکن آج کا پاکستان شدید معاشی چیلنجز سے دوچار ہے جن میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، اور امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق شامل ہیں۔ معاشی بدانتظامی، بدعنوانی، اور انسانی ترقی میں سرمایہ کاری کی ناکامی نے ایک ایسی سوسائٹی کو جنم دیا ہے جہاں ایک چھوٹا طبقہ امتیازات سے لطف اندوز ہو رہا ہے جبکہ اکثریت اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس ناہمواری نے نہ صرف سماجی بے چینی پیدا کی ہے بلکہ قائداعظم کے زور دیے گئے قومی یکجہتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
ایک اور اہم وجہ مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کا عروج ہے جو قائداعظم کے وڑن کی تکمیل میں رکاوٹ بنی ہے۔ قائداعظم کا پاکستان کا خواب شمولیتی اور ہمہ گیر تھا۔ انہوں نے 11 اگست 1947 کی اپنی مشہور تقریر میں واضح کیا تھا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہو گی جہاں تمام مذاہب کے لوگ اپنے عقائد کی آزادی کے ساتھ عمل کر سکیں گے۔ لیکن گزشتہ برسوں میں پاکستان میں مذہبی عدم برداشت اور فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقلیتی برادریاں جو کبھی ملک کے سماجی تانے بانے کا ایک اہم حصہ تھیں، اب اکثر ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتی ہیں۔ مذہبی آزادی اور رواداری کے اصولوں سے انحراف جو قائداعظم نے اپنائے تھے، نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو داغدار کیا ہے بلکہ ملک کے اندر تقسیم بھی پیدا کی ہے۔پاکستان کے تعلیمی نظام میں بھی ہم قائداعظم کے وڑن کے مطابق ناکام رہے ہیں۔ قائداعظم تعلیم پر بہت زور دیتے تھے اور اسے ترقی اور پیشرفت کی کلید سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک علمی معاشرہ بنے جہاں لوگ تعلیم اور جدت کے ذریعے بااختیار ہوں۔ تاہم، پاکستان کا تعلیمی نظام گہرے مسائل کا شکار ہے، مختلف علاقوں اور سماجی طبقوں میں رسائی اور معیار میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ تعلیم پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے پاکستان کی عالمی مقابلے کی صلاحیت کمزور ہو گئی ہے اور غریبی اور پسماندگی کے چکر کو فروغ ملا ہے۔ مزید برآں، نصاب اکثر تاریخ اور مذہب کی محدود تشریحات کو فروغ دیتا ہے، جس سے انتہا پسند نظریات بڑھتے ہیں، بجائے اس کے کہ تنقیدی سوچ اور علمی ترقی کی ثقافت کو فروغ دیا جائے۔بدعنوانی بھی قائداعظم کے وڑن کی تکمیل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ قائداعظم ایک ایماندار شخص تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بنے جہاں عوامی عہدیدار ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ لوگوں کی خدمت کریں۔ بدقسمتی سے، بدعنوانی ہمارے معاشرے میں گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ اس نے نہ صرف حکومت پر عوام کے اعتماد کو مجروح کیا ہے بلکہ صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم عوامی خدمات کے وسائل کو بھی ضائع کیا ہے۔ بدعنوانی کی ثقافت نے ایک ایسا نظام پیدا کیا ہے جہاں میرٹ کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ذاتی مفادات قومی مفاد پر غالب آ جاتے ہیں، جس سے ملک قائداعظم کے اصولوں سے مزید دور ہوتا جا رہا ہے۔
مزید برآں، قائداعظم کے وڑن کی بنیاد قانون کی حکمرانی تھی، لیکن پاکستان میں یہ اکثر نظر انداز ہوتی رہی ہے۔ قائداعظم انصاف اور قانون کی بالادستی پر سخت یقین رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہو جہاں ہر شہری، چاہے اس کا سماجی یا سیاسی مقام کچھ بھی ہو، قانون کے تابع ہو اور انصاف بلا خوف و خطر فراہم کیا جائے۔ تاہم، پاکستان کا عدالتی نظام اکثر مداخلت کی زد میں رہتا ہے اور بروقت اور غیر جانبدارانہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے لاقانونیت اور بے حسی کا احساس پیدا کیا ہے، جو ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان معاہدے کو مزید کمزور کرتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...