نوجوان قائد اعظم کو رول ماڈل بنائیں

آج کا پاکستان قیادت اور کردار کے بحران سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے ریاست کو مختلف نوعیت کے بحرانوں کا سامنا ہے-اگر پاکستان کے نوجوان سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرتے تو پاکستان کبھی کردار کے بحران سے دو چار نہ ہوتا- عالمی شہرت یافتہ مفکر برناڈ شا نے کہا " دنیا کے لوگ اگر امن انصاف اور خوشحالی چاہتے ہیں تو وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہبر و رہنما بنا لیں-" قائد اعظم کو ان کے سیاسی مخالفین بھی امانت دیانت اور صداقت کے اوصاف کی حامل شخصیت تسلیم کرتے تھے-حکیم الامت علامہ اقبال نے قائد اعظم کے بارے میں فرمایا کہ" وہ نہ تو کرپٹ ہیں اور نہ ہی کوئی ان کو خرید سکتا ہے" قائد اعظم کی شخصیت پر علامہ اقبال کا یہ شعر مکمل طور پر صادق آتا ہے کہ
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز 
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے 
قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے ایک سال تک نئی اور آزاد ریاست کا نظم و نسق چلایا اور گڈ گورننس کا اعلی نمونہ پیش کیا-انہوں نے پروٹوکول کو مسترد کر دیا اور سادگی و کفایت شعاری کا عملی مظاہرہ کیا- جب انہوں نے گورنر جنرل پاکستان کا منصب سنبھالا اور گورنر جنرل ہاوس میں منتقل ہو گئے تو سب سے پہلے انہوں نے گورنر جنرل ہاوس کے انتظامی اخراجات کو کم کیا-ان سے پہلے گورنر جنرل ہاوس پر 230 روپے ماہانہ اخراجات ہوتے تھے قائد اعظم نے یہ اخراجات کم کر کے 143 روپے ماہانہ کر دیے-قائد اعظم فرشتہ سیرت سیاسی شخصیت تھے- وہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بے مثالی رول ماڈل تھے-قائد اعظم رات کو سونے سے پہلے گورنر جنرل ہاوس کی فالتو بتیاں بند کر دیا کرتے تھے-انہوں نے فرمایا" پیسے کا ضیاع گناہ ہے اور اگر پیسہ قومی خزانے کا ہو تو اس کا ضیاع بدترین گناہ ہے-" 
قدرت اللہ شہاب نے اپنی معروف کتاب "شہاب نامہ" میں تحریر کیا ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں سرکاری ملازم تھے ان کو ایک ایسی فائل دیکھنے کا موقع ملا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ناکام بنانے کے لیے ایک منصوبے کی سمری شامل تھی - قدرت اللہ شہاب یہ فائل لے کر قائد اعظم کے پاس پہنچے - قائد اعظم نے فائل کی سمری دیکھ کر کہا-" بوائے تم نے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ تمہارے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے آئندہ احتیاط کرنا۔" قائد اعظم کی صحت روز بروز تشویش ناک ہوتی جا رہی تھی جس کو دیکھ کر ان کی عظیم بہن فاطمہ جناح نے مشورہ دیا کہ قائد اعظم چند دن رخصت لے کر آرام کریں- قائد اعظم نے اپنی بہن فاطمہ جناح کو کہا کہ "جب میں 10 کروڑ افراد کی سلامتی اور بقا کی تشویش میں مبتلا ہوں تو ایک فرد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے۔"قائد اعظم 1946  کی انتخابی مہم کے دوران جب ڈھاکہ پہنچے تو امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر اے ایچ اصفہانی نے قائد اعظم کو بتایا کہ ان کا مخالف امیدوار 250 روپے لے کر ان کے حق میں دستبردار ہونے کے لیے تیار ہے- قائد اعظم نے فرمایا " مائی بوائے سیاست میں اخلاقیات نجی زندگی سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے کیونکہ اگر تم پبلک لائف میں غیر اخلاقی کام کرتے ہو تو تم ان ہزاروں لوگوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہو جو تم پر اعتماد اور انحصار کرتے ہیں۔ "سندھ میں انتخابی مہم کے انچارج جی الانہ نے قائد اعظم کو کہا کہ ہمیں ووٹ خریدنے کے لیے پارٹی فنڈ کی ضرورت ہے- قائداعظم نے جواب دیا " ایک بات یاد رکھو میں کسی ووٹر کو ووٹ کے لیے ایک روپیہ نہیں دوں گا - میں بددیانتی اور دھاندلی سے جیتنے کی بجائے انتخاب ہارنے کو ترجیح دوں گا” قائد اعظم نے سردار عبدالرب نشتر کو کہا عوام سے کبھی خوفزدہ نہ ہوں۔ ان کے ساتھ دیانتداری کا مظاہرہ کرو اور سچ بولو، وہ ہمیشہ آپ سے تعاون کریں گے - آپ کے لیے مشکلات اس وقت شروع ہوں گی جب آپ عوام سے حقائق چھپائیں گے۔“قائد اعظم کے سیکرٹری کے ایچ خورشید کے مطابق قائد اعظم ایک روز عوامی جلسے سے خطاب کے بعد رات 12 بجے اپنے گھر پہنچے، انہوں نے فاطمہ جناح اور مجھے ہدایت کی کہ لوگوں نے جو پارٹی فنڈ دیا ہے اس کی گنتی کر کے رقم رجسٹر میں درج کریں- قائد اعظم پارٹی فنڈ کے سلسلے میں بڑے محتاط تھے-قائد اعظم کے اے ڈی سی میاں عطا ربانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ وہ 1945ءمیں انڈین ایئر فورس میں ملازم تھے انہوں نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کے لیے 27522 روپے پارٹی فنڈ جمع کیا اور قائد اعظم کو پیش کیا قائد اعظم نے میرے جذبے کی تعریف کی اور اپنے دستخط کر کے رسید دی البتہ انتباہ کیا کہ آئندہ پارٹی فنڈ جمع نہ کرنا۔ تم سرکاری ملازم ہو تمہارا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے- (قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل: مطبوعہ علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور)۔ قائد اعظم اقربا پروری کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے آزادی کے بعد اپنی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی کسی منصب پر فائز نہ کیا- قائد اعظم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ رشوت اور کرپشن ریاست کے لیے زہر ثابت ہوتی ہیں جن کی کڑی سزائیں ہونی چاہئیں- قائد اعظم نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی آئین کے آرٹیکل قانون اور ضابطے کو نہیں توڑا۔ وہ آئین اور قانون کی حکمرانی میں پختہ یقین رکھتے تھے- قائد اعظم کی رحلت کے بعد حکمران اشرافیہ نے اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر قائد اعظم کے عملی کردار اور ریاستی امور کے بارے میں ان کے تصورات کو سلیبس کا حصہ نہ بنایا- اس کی وجہ سے پاکستان کے نوجوان قائد اعظم کی عملی زندگی سے بے خبر رہے-جس طرح علماءقران اور سیرت کے عملی پیغام کو اجاگر کرنے کی بجائے شرعی اور نظری بحثوں میں الجھے رہے اسی طرح مورخ اور دانشور بھی قائد اعظم کے مثالی کردار کو اجاگر کرنے کی بجائے نظریاتی بحثوں میں مصروف رہے- اللہ کرے مورخ اور دانشور فکری بحثوں کی بجائے کردار سازی اور اصلاح کی جانب آ جائیں - پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے اگر قائد اعظم کے معیار کا ایک اور قائد میسر آ جائے تو پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر سکتا ہے-پاکستان کے نوجوان اگر آج بھی قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل تسلیم کر لیں تو وہ نہ صرف مایوسی سے باہر نکل سکتے ہیں بلکہ اپنا مقدر بھی سنوار سکتے ہیں اور پاکستان کا مستقبل مضبوط اور محفوظ ہو سکتا ہے-

ای پیپر دی نیشن