قوموں کی زندگی میں کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جو گزرتے ہیں تو اپنے پیچھے کئی انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ قومیںکبھی خوشی سے ہمکنار ہوتی ہیں تو کبھی بہت سارے غم بھی اُسے سہنے پڑتے ہیں۔ 11ستمبر 1948ء ہفتے کا ایک ایسا دن تھا جو ہمیں دکھی اور رنجیدہ کر گیا۔ اس دن قوم کو پاکستان کی صورت میں ایک آزاد ملک کا تحفہ دینے والے قائد محمد علی جناح آزادی کے ٹھیک ایک سال بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اور کراچی میں آسودہ خاک ہو گئے۔
ہر سال جب بھی 11ستمبر آتا ہے ہم سب اپنے قائد کو یاد کرتے ہیں۔ ملک بھر میں اور ملکوں ملکوں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں قائد کی باتیں ہوتی ہیں۔ بظاہر جناح ایک بہت ہی نحیف و نزار جسم کے مالک تھے لیکن اندر سے اتنے ہی مضبوط ، توانا ، پُرعزم اور باحوصلہ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد ریاست کے قیام کے لیے جو سیاسی جدوجہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔
محمد علی جناح کا جنم کراچی میں 25دسمبر 1876ءکو ہوا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اُن کی مادری زبان گجراتی تھی۔ لیکن اردو بھی بڑی روانی کے ساتھ بول لیتے تھے۔ انگریزی پر قائداعظم کو مکمل عبور اور دسترس حاصل تھی۔ قائد کی انگریز ی پر انگریز بھی اُن کے مداح اور معترف نظر آتے تھے۔ 1876ءایسی دہائی تھی جب تعلیم کا اتنا رواج نہیں تھا لیکن محمد علی جناح کے والد پونجا جناح نے جو ایک تاجر تھے فیصلہ کیا کہ محمد علی ناصرف تعلیم حاصل کریں گے بلکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انہیں لندن بھی بھیجا جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ محمد علی نے گریجویشن مکمل کی تو والد پونجا نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھجوا دیا جہاں ا±ن کا داخلہ آکسفورڈ جیسے اعلیٰ تعلیمی انسٹی ٹیوشن میں ہوا۔ یہاں انہوں نے 3جولائی 1887ءسے جنوری 1892ءتک تعلیم حاصل کی۔ یہیں بیرسٹر بنے اور وکالت کی اعلیٰ ڈگری کے ساتھ واپس ہندوستان آئے۔
پھر علامہ اقبال کے مشورے پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کے لیے طویل سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس کے لیے انہیں ایک مضبوط پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ اس غرض سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اکثریت رائے سے اس کے سربراہ بن گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے بعد نئی ریاست کے قیام کی جدوجہد تیز ہو گئی۔ محمد علی جناح نے الگ ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مزید تیزی لانے کے لیے ہندوستان بھر کے طوفانی دورے کئے۔ جس سے متحدہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان شعوری طور پر بیدار ہونا شروع ہو گئے۔ جس سے آل انڈیا مسلم لیگ کا پلیٹ فارم اور بھی زیادہ فعال اور مضبوط ہو گیا۔محمد علی جناح بلا کے ذہین تھے۔ کسی انگریز یا ہندو جج کی عدالت میں پیش ہوتے تو دلائل سے اپنے کلائنٹ کے موقف کی سچائی ثابت کرتے۔ اگرچہ ان دنوں میڈیا عام نہیں تھا۔ ناہی لوگوں کی خبروں تک عام رسائی ممکن تھی۔ صرف گنتی کے دو، تین اخبار تھے۔ پھر بھی محمد علی جناح کے پُر اثر دلائل کی دھوم سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس ”دھوم“ کی بازگشت دھیرے دھیرے لندن اور نیویارک میں بھی سنی جانے لگی ۔ دنیا کی زبان پر تھا کہ محمد علی جناح جیسا ذہین اور قابل وکیل شاید ہی کوئی ہو۔محمد علی جناح بیسوی صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے ”میثاق لکھنو“ کو مرتب کرنے میں بھی اُن کا اہم رول تھا۔ جناح نے 14نکات بھی پیش کئے۔ جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔1920ءمیں ایک وقت ایسا بھی آیا جب جناح آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ”ستیاگرا“ کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔
1940ءآیا تو جناح کو یہ یقین ہو گیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قراردادِ پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑ لی۔ جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی، تاہم اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ اور متحدہ ہندوستان کی تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہندوستان کے دو حصّے کئے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی والا علاقہ (پاکستان)ہو جبکہ باقی ماندہ علاقے میں بھارت کا قیام ہو۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور اس کے لیے ایک ٹھوس لائحہ عمل دیا۔ لاکھوں لوگوں کی بہبود اور نئی ریاست میں آبادکاری کیسے ہو گی؟ یہ بھی بتا دیا۔
جناح ابھی نوجوان تھے کہ بمبئی میں وکالت کی مشق شروع کر دی۔ وہ اس وقت شہر کے واحد مسلم بیرسٹر تھے۔ اردو بول لیتے تھے لیکن عادتاً انگریزی زبان استعمال کرتے۔ یہ عادت جناح میں عمر بھر رہی۔ اُن کی وکالت کے ابتدائی تین سال (1897ءتا1900ء) کچھ خاص نہ تھے۔ تاہم وکالت کے شعبے میں اُن کے روشن مستقبل کا آغاز اُس وقت ہوا جب بمبئی کے ایڈووکیٹ جولی جان مولسورتھ نے انہیں اپنے چیمبر میں کام کرنے کے لیے مدعو کیا۔ بعد ازاں بمبئی کے مجسٹریٹ پی ایچ داستور کی نشست عارضی طور پر خالی ہوئی تو محمد علی جناح کو مجسٹریٹ کی اس خالی نشست کے لیے چُنا گیا۔ اور انہوں نے قائم مقام مجسٹریٹ کے طور پر کجھ عرصہ یہ فرائض انجام دئیے۔ انہیں اس عہدہ پر تعیناتی کے بعد 1500روپے ماہانہ تنخواہ بھی ملنا شروع ہو گئی۔ تاہم جناح نے بعدازاں یہ کہہ کر مجسٹریٹی کے اس عدالتی عہدہ کو چھوڑ دیا کہ وہ 1500روپے روزانہ کمانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس دور میں 1500روپے بھی بہت بڑی رقم تھی لیکن اچھے مستقبل کے لیے جناح نے یہ رقم ٹھکرا دی اور مجسٹریٹی کا عہدہ بھی چھوڑ دیا۔
تاریخ نے جناح کو امر کر دیا